50 واں یوم تحفظ ختم نبوت
1974ء "7ستمبر" 2024ء
تحریر:
ڈاکٹر فیض احمد بھٹی
قارئین! عقیدہ ختم نبوت "کلمہ طیبہ" کی قبولیت میں شرط اول ہے۔ اگر ختم نبوت پر ایمان نہیں تو خالی کلمے کے اقرار کی کوئی حیثیت نہیں۔ ختم نبوت کے حوالے سے اگر عہد رسالت اور عہد صحابہ مطلب قرون اولی کا تاریخی مطالعہ کیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ختم نبوت کا منکر تب بھی کافر تھا، آج بھی کافر ہے اور تا قیامت کافر ہی کہلائے گا۔
جہاں تک تعلق ہے قادیانیوں کا تو یہ نہ صرف کافر ہیں بلکہ بدترین مرتد ہیں؛ کیونکہ یہ کلمہ گوئی کا بھی اظہار کرتے ہیں اور ختم نبوت کا بھی انکار کرتے ہیں۔ اسی طرح پاکستانی ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور آئین پاکستان کے منکر بھی ہیں۔
ان کا پس منظر کچھ یوں
ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں "مرزا غلام قادیانی" نے کذب بیانی کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوے آخر مرحلے میں نبوت کا دعوی کر دیا۔ دھیرے دھیرے کچھ لوگ اس کے پیروکار بھی بن گئے۔ بین الاقوامی کفریہ طاقتوں بالخصوص برطانوی سامراج کی پشت پناہی کی وجہ سے یہ لوگ مالی طور پر مضبوط در مضبوط ہونے لگے اور لوگوں کو لالچ، دھونس، دھمکی اور ورغلا کر اپنی ارتدادی مہم کو آگے بڑھانے کی کوشش میں مصروف ہو گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی شرارتیں اور خباثتیں مزید ظاہر ہونا شروع ہوئیں اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب یہ کھلم کھلا دندناتے ہوئے اپنی بد عقیدگی پھیلانے لگ گئے۔ تقسیم ہند کے بعد اس بات کی شدت سے ضرورت محسوس ہوئی کہ اب اس فتنے کو کم از کم پاکستانی سطح پر قانونی طور پہ غیر مسلم قرار دے کر ہمیشہ ہمیشہ کےلیے دفن کر دیا جائے۔ چنانچہ اس سلسلے میں کئی تحریکیں اٹھیں اور اپنی طاقت سے بڑھ کر ختم نبوت کی حمایت اور منکرین کے خلاف کام کیا۔ لیکن بعض تحریکیں بعض تاریخوں کو ’"سنہری تاریخ" بنا دیتی ہیں۔ جیسا کہ 1953ء کی تحریک ختم نبوت نے چلتے چلتے 7 ستمبر 1974ء کو ایک "سنہری اور یادگار تاریخ" بنا دیا۔ کیونکہ 7 ستمبر 1974ء کو آئین میں بالاتفاق حتمی طور پہ درج ہو گیا کہ رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کسی بھی پہلو سے آخری نبی نہ ماننے والا دائرہ اسلام سے مکمل طور پہ خارج ہوگا۔
اس آئینی فیصلے سے قبل اگرچہ پوری امتِ مسلمہ قادیانیوں کے کافر ہونے کی قائل و فاعل تو تھی، مگر ریاستی سطح پر آئین اس معاملے میں خاموش تھا کہ قادیانی کافر ہیں یا نہیں؟ یہ کریڈٹ اس وقت کے مخلص علماء، مشائخ، وکلاء، سیاتدانوں اور ان تمام احباب گرامی کو جاتا ہے کہ جنہوں نے قادیانی مُربیوں اور انکے حامی وکیلوں کے ساتھ ایک لمبے، آزادانہ اور مُنصفانہ مناظرے کے بعد تمام اَرکان اسمبلی کی اتفاق رائے سے ان کے خارج از اسلام ہونے کا بِل پاس کروایا۔ اور انہیں ریاستی سطح پر ہمیشہ کےلیے کافر ڈکلیئر کیا۔
قارئین! یہ تو آئین پاکستان میں درج ہوگیا کہ قادیانی کافر ہیں، مگر یہ تشویش ابھی باقی ہے کہ ان مرزائیت پرستوں نے آج تک اپنی مذکورہ آئینی حیثیت کو تسلیم ہی نہیں کیا۔ لہذا قادیانیوں کی یہ بھیانک ترین روش سیدھی سیدھی آئین پاکستان سے بغاوت اور ملک غداری کے زمرے میں آتی ہے۔ اوپر سے یہ لوگ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان پر حملہ آور رہتے ہیں۔
قارئین! پورے پاکستان کا یہ دو ٹوک موقف ہے کہ: یا تو یہ آئین کی رو سے خود کو غیر مسلم قرار دے کر بطور قادیانی اپنی مذہبی شناخت قبول کریں، اور اقلیتی دائرے میں آ کر عیسایوں، یہودیوں، ہندوؤں اور سکھوں کی طرح تمام اقلیتی حقوق حاصل کریں۔
اور یا پھر اپنی سابقہ ڈگر پہ ہی لگے رہیں۔ مگر چور دروازوں سے اسلامی تشخص یا ملکی دھارے میں شامل ہونے کا خیال ہمیشہ ہمیشہ کےلیے دل سے نکال دیں۔ امتِ مسلمہ خصوصاً مسلمانانِ پاکستان ایسا کبھی نہیں ہونے دیں گے (ان شاء اللہ)۔
حکومت وقت کو بھی اور آنے والی اگلی حکومتوں کو بھی اس معاملے میں ہوش کے ناخن لینے چاہییں؛ کیونکہ یہ کوئی عام مسئلہ نہیں بلکہ یہ دو جہانوں کے سردار محبوب خدا امام الأنبیا، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت و ناموس کا مسئلہ ہے۔
ویسے اللّٰہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ پوری امت مسلمہ: کیا شیعہ، کیا بریلوی، کیا دیوبندی، کیا اہلحدیث، سب کے سب اس بات پر سو فیصد متفق ہیں کہ ختم نبوت کا منکر پکا کافر ہے۔
بلکہ پیر مہر علی شاہ، سید کبیر علی شاہ، مولانا خادم حسین رضوی، مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا حافظ عبد القادر روپڑی، مولانا اللہ وسایا وغیرھم نے تو یہاں تک فتوی دیا کہ جو ختم نبوت کے منکر کو کافر نہ مانے وہ بھی کافر ہے۔
جبکہ پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو "نبی اللہ" اور "رسول اللہ" ماننا اگرچہ واجب ہے مگر خاتم الانبیاء و المرسلین ماننا اوجب الواجبات ہے۔
مفتی زر ولی خان مرحرم، مولانا فضل الرحمن، مفتی منیب الرحمن، مفتی منظور مینگل وغیرھم وغیرہ نے کہا کہ قرآن و حدیث کی نصوص صریحہ اور اجماع امت سے قادیانی نہ صرف کافر ہیں بلکہ بد ترین مرتد ہیں۔
بہرحال اس فتنے کو آئینی طور پہ دفن کرنے میں علماء، مشائخ، وکلاء، سیاستدان، حکمران بالخصوص سید شاہ احمد نورانی، مفتی محمود، مولانا عبدالستار نیازی، حافظ عبدالقادر روپڑی، علامہ احسان الہی ظہیر اور نوابزادہ نصر اللہ خان کی خدمات نا قابل فراموش ہیں۔ جبکہ اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اس عظیم کارنامے کے سرخیل ہیں کہ جنہوں نے بلا تأمل بل پر دستخط فرمائے۔ اور جنرل ضیاء الحق مرحوم نے بھی آئینی طور پر انکی تمام سرگرمیوں کو ممنوع قرار دے کر بڑا اعلی اقدام اٹھایا۔
یاد رہے! اس قانون کے پاس ہوتے ہی قادیانیوں نے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اس "قانونی ترمیم" کو چیلنج کر دیا تھا۔ مسلمانوں کی طرف سے ڈاکٹر سید ریاض الحسن گیلانی اور احمدیوں کی طرف سے فخرالدین جی ابراہیم نے اس کیس کی مکمل پیروی کی، لیکن مرزا غلام قادیانی کی تصانیف میں لکھی ہوئی اسلام مخالف باتیں اور کھلی گستاخیاں قادیانیوں کے خلاف دلائل قاطعہ ثابت ہوئیں۔ اور وہاں کورٹس میں بھی یہ خود کو کسی طرح بھی مسلمان ثابت نہ کر سکے۔
اس لیے اس تاریخی فیصلے کے 50 سال پورے ہونے پرہم ختم نبوت کے شہیدوں، مجاہدوں، غازیوں، اور سپہ سالاروں سمیت تمام پاکستانی مسلمانوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ جنہوں نے اس فتنہ قادنیت کو آئینی طور پہ نیست و نابود کیا
Opmerkingen