یوم وصال: قلزمِ فیوضات حضرت مولانا اللہ یار خان ؒ 18 فروری 1984
تحریر: شیخ المکرم حضرت امیر عبدالقدیر اعوان مدظلہ العالی۔
رشتوں سے بندھی اس حیات میں والدین کے بعد میں جس رشتے سے آشنا ہوا وہ شیخ کا رشتہ تھا۔میرے والد ِمحترم، میرے ابوجی کے شیخ المکرم قلزمِ فیو ضات حضرت العلام مولانا اللہ یار خان ؒ
آپ ؒ ہمارے گھر کی ہر بات، ہر سوچ، ہر خیال کا محور و مرکز تھے۔ ابو جی (قاسم فیوضا ت حضرت مولانا امیر محمد اکرم اعوان ؒ) کی حیات ِمبارکہ میں حضرت قلزم ِفیوضات سے بڑھ کے کوئی تعلق اہم نہ تھا۔
ہم چھو ٹے چھوٹے سے تھے جب اعلیٰ حضرت ؒ ہمارے ہاں تین، تین ماہ کیلئے تشریف لاتے اور ہمارے گھر میں برکات کا سیل ِرواں یوں اُمڈ آتا کہ ہر لمحہ ایک رونق، ایک گہما گہمی کا احساس لئے ہوتا، والدہ (امی جی) کیلئے اعلیٰ حضرت ؒ کا ہر کام اپنے ہاتھوں سے کرنے کی لگن اور خوشی انھیں مزید تازہ دم کر دیتی اور ابو جی اعلیٰ حضرت ؒ کے ساتھ ساتھ ان کیلئے آنے والے مہمانوں کی مدارات میں سرگرم دکھائی دیتے۔بچپن میں بھی اس وقت میں گھر کی فضا میں رونق اور ٹھہراؤ ٔ کو واضح طور پہ محسوس کرتا۔
آہستہ آہستہ مجھے اعلیٰ حضرت جی ؒکی ذات ایک کوہ ِفلک بوس محسوس ہونے لگی۔ وہ میانہ قد کے ہونے کے باوجود نہایت قد آور محسوس ہونے لگے۔ جلال و دبدبہ ان کی شخصیت کا حصہ تھے۔ ان کی نگاہو ں کی تاب لانے کی مجال کسی میں نہ تھی لیکن ان کی نرم گفتاری مجھے ان کے قریب لے جاتی۔
وہ حقیقتاً قلزمِ فیوضات تھے۔ زندگی کے حالات نے انہیں باقاعدہ تحصیل ِعلم کی مہلت بیس بائیس سا ل کی عمر میں جا کر دی اور پھر آپؒ دشت ِعلم کی تحصیل میں دس سال تک سر گرداں رہے۔ آپ ؒ نے فارسی تعلیم بھیرہ، صرف و نحو کی تراکیب کوٹ فتح خان، دورہ ٔحدیث ڈھلوال (نزد کلر کہار) اور اعادہ دورۂ حدیث مدرسہ امینیہ دہلی سے مفتی کفایت اللہ صاحب سے کیا۔ بیضاوی، طحاوی شریف اور ہدا یہ یہیں مکمل کیں۔ درس ِنظامی کے ساتھ ساتھ آپؒ نے عربی و فارسی کتب کی تکمیل کیلئے صرف و نحو، منطق، تفسیر، حدیث کے علاوہ ردِ فر قہ باطلہ اور فن ِمناظرہ میں کمال حاصل کیا۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں تحقیق و جستجو کا شوق خاص طور پر ودیعت فرما رکھا تھا۔ دین کے ظاہری علوم میں آپؒ اپنے اساتذہ سے علمی مباحث اور فکر و تدبر سے اوجِ کمال پہ پہنچ گئے۔ بحر علومِ ظاہری کی شناوری میں مصروف تھے کہ اللہ کریم نے آپؒ کو علومِ باطنی کی نعمت سے نوازنے کیلئے خواجہ عبدالرحیم ؒ کی خدمت میں پہنچا دیا۔ یہاں بھی سماع موتی ٰکے مسئلہ پر حضرت عبد الرحیم ؒ کے، چوپال میں بیٹھے لوگوں سے فرمان، ---------ـ’’آپ لو گ کہتے ہیں مردے سنتے نہیں۔ میں آپکو کیسے سمجھاؤں کہ وہ مجھ سے باتیں کرتے ہیں۔‘‘---------ّّّّّ کی تحقیق پہ امتحاناً ان کے ساتھ جانے والی ہستی ارادتاً ان کے قدوم میں بیٹھ گئی اور وہ حالتِ مراقبہ میں بےاختیار فرما گئے ’’جس کا انتظار تھا وہ آ گئے۔‘‘ اور پھر تصوف کے زینہ پر رکھا جانے والا یہ قدم انہیں مجددِ طریقت کے مقام پہ لے گیا۔ آپ ؒنے اس دورِ پرفتن میں جب یا تو روحانیت کا انکار تھا یا نقل، اُسے اُسکی اصل کے ساتھ متعارف کرایا اور مخلوق خدا کو انتہائی سہل، سادہ اور خوبصورت انداز میں اسکی حقیقت سے آشنا کروا دیا۔ یوں کہ کوئی بھی، کسی بھی طبقہ اور مکتبۂ فکر کا مرد و زن حاضرِ خدمت ہوا، فیض یاب ہوا۔ وہ منازلِ سلوک، جن کا تذکرہ صاحب سلوک کرتے ہوئے ہچکچا تے تھے، آپ ؒ نے ڈنکے کی چوٹ پہ بیان فرمائیں اور آنے والے کو اسکی خلوصِ نیت کے مطابق وہاں تک پہنچایا بھی۔ یہاں تک کہ آپ ؒ کی مسجد میں پانی بھرنے والا شخص بھی فنا فی الرسول ﷺ تھا۔ اس دور میں جبکہ سائنسی ترقی کا غوغا بلند ہو رہا تھا۔ آپ ؒ نے کتابوں میں درج روحانی حقائق عملًا کروا کر ان کا ثبوت دیا اور ثابت کیا کہ دماغ کی رسائی، ہنوز قلبی رسائی سے بہت پیچھے ہے، ذہنی طاقتیں، روحانی قوتوں کی خا ک کو بھی نہیں پا سکتیں۔ آپ ؒ سے کرامات تو سر زد ہوئیں ہی، آپ ؒ نے کشف و وجدان بھی ثابت کر کے دکھائے۔گویا آپؒ نے تصو ف منوا کے دکھایا۔ آپؒ کی تحاریر ہوں یا تقاریر مدلل، پُر مغز اور واضح طور پہ تصوف کو دین کی روح ثابت کرتی ہیں۔ آپؒ کی ہر بات پُرتیقن اور ببانگ ِدہل ہو ا کرتی۔ کسی بھی باطل قوت میں یہ دم نہ تھا کہ وہ اس مردِ حق کے سامنے دم مار سکے۔ آپ نے بیسیوں کتب تصنیف فرمائیں۔ موضوعِ تصوف پہ آپ ؒ کی شہرہ ٔ آفاق کتاب، دلائل السلوک، آج بھی تصوف سمجھنے کا شوق رکھنے والوں اور راہِ سلوک کے متلاشیوں کیلئے مشعل راہ ہے۔
آپ ؒ تمام تر حیا ت، دین ِحق کی سر بلندی کے لئے پا بہ رکاب رہے۔ آپؒ کا سفر و حضر فقط اور فقط احیائے دین کے لئے تھا۔ آپؒ کی شب بیداریاں کبھی بھی دن کی سعی ٔ مسلسل پر اثر انداز نہ ہوتیں اور دن کی تھکاوٹیں، کبھی شب بیداریوں پہ اثر انداز نہ ہو سکیں۔ آپ ؒ کی حیات مطا لعہ، بیان، ذکر، مراقبات اور خالصتا ً دین کے لئے اسفار سے عبارت رہی۔
قارئین کرام! یہ سطور لکھتے ہوئے میں یوں بھی دیدۂ پُرنم لئے ہوں کہ اللہ کی راہ میں جاگنے اور دین کی بلندی کے لئے تحقیق و جستجو میں مگن رہنے والی نگاہیں، جب ہما رے ہاں آتیں تو مجھے نہایت محبت سے تکا کرتی تھیں۔ دینی حقائق کو کھول کر بیان کرنے والے قلم کو تھامنے والے ہاتھ مجھے انتہائی شفقت سے چھوا کرتے تھے اور وہ دامن جس نے ایک جہان میں گہر باری کی، مجھے اپنے اندر سمیٹا کرتا تھا۔
میری انتہائی خوش بختی کہ میرا نام بھی انہوں نے ہی رکھا۔ میرے قلب و ذہن میں آج بھی وہ یادیں درخشاں ہیں۔آموں کے مو سم میں، میں جب بھی ان کے پاس جاتا وہ ملک احمد نواز صاحب کو پکارتے ’’احمد نواز ملک آیا اے۔ امب دیووئی ملکے نوں۔‘‘(ملک آیا ہے بھئی ملک کو آم دیں۔)
میری والدہ بتاتی ہیں کہ شیر خوارگی میں، ایک دن میں بہت رو رہا تھا۔ انھوں نے حضرت جی ؒ سے عرض کی ’’اسے دم کر دیں۔‘‘ انھوں نے دم فرمانے کے بعد فرمایا، ’’اسے اکرم سے دم کرواتی رہا کرو۔ ‘‘انھوں نے سادگی سے عرض کیا ’’وہ میرے ہاتھ ہی نہیں آتے۔ ‘‘فرمانے لگے، ’’آؤ میں اپنی بیٹی کو دم بتاتا ہوں۔ تم خود کر لیا کرنا۔ ‘‘یوں انہیں دم سکھایا۔
۱۸ فروری ۱۹٨٤ء کا وہ لمحہ مجھے آج بھی یاد ہے جب رضائے الٰہی نے مجھے ایک شیخ کے پہلو سے اٹھا کر دوسرے شیخ کے سینہ سے لگا دیا۔ اس وقت ابوجی کے قلب اطہر پہ جو درد اُترا، وہ، آج خود شیخ بننے کے بعد میرے دل میں یوں اُتر رہا ہے کہ ہر ماہ فروری میں اپنے قلب کی گہرائی کا اندازہ نئے سرے سے ہوتا ہے۔
Comentários