ڈاکٹر ذاکر نائک کا مختصر تعارف:-
18 اکتوبر 1965ء کو بھارتی ریاست مہاراشٹر کے شہر بمبئی میں پیدا ہونے والے ذاکر نائیک پیشے کے لحاظ سے تو ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں, لیکن انہیں دعوت دین اور مختلف ریلجن میں پی ایچ ڈی ڈگری مصر کی یونیورسٹی سے حاصل کیا ہے ۔
انہوں نے 1991ء میں بمبئی میں ہی اسلام ریسرچ فاؤنڈیشن کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھ دی۔ اللہ کی شان دیکھئے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی زبان میں لکنت بھی ہے اور وہ اکثر دعائے موسوی پڑہتے سنائی دیتے ہیں :
(( رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي ))
اے میرے رب ! میرا سینہ کھول دے۔
(( وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي ))
اور میرا کام آسان کر دے
(( وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي ))
اور میری زبان کی گرہ کھول دے.
(( يَفْقَهُوا قَوْلِي ))
کہ لوگ میری بات کو سمجھ لیں‘‘
حتی کہ اس دعا کے زیر اثر اللہ تعالیٰ نے ان کی لکنت زدہ زبان میں ایسی تاثیر ڈالی کہ اس نے سارے عالم میں اسلام کی مٹھاس پھیلا دی۔
دنیا کے سارے براعظموں میں وہ جا چکے، 20 سال کے عرصہ میں انہوں نے بیسیوں ملکوں میں لا تعداد بڑے عوامی اجتماعات سے خطاب کیا، کتنے ہی لوگوں کو بائیبل، توریت اور ہندوؤں کی گیتا و مہابھارت سے تقابل کرکے دائرہ اسلام میں داخل کیا۔
ذاکر نائیک کہتے ہیں کہ دعوت دین کے مشن کے لئے وہ عظیم اسلامی مبلغ و محقق احمد دیدات سے متاثر ہوئے تھے، جن کے ساتھ ان کی پہلی ملاقات 1987 میں ہوئی۔ 2006ء میں انہوں نے بتایا کہ دیدات نے انہیں ’’دیدات پلس‘‘ کا لقب دیا تھا۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کی زندگی میں بے شمار اتار چڑھاؤ آئے۔
یکم اپریل 2000 کو امریکہ میں ان کا عیسائیوں کے نامی گرامی عالم ولیم کیمبل کے ساتھ کئی گھنٹے طویل مناظرہ ساری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا تھا۔ اس مناظرہ کا عنوان ’’قرآن اور بائیبل، سائنس کی روشنی میں‘‘ تھا۔ یہ مناظرہ ایک امریکی ٹی وی چینل پر براہ راست دکھایا جا رہا تھا۔ جس کے بعد کم از کم 34 ہزار امریکی لوگوں نے آن دی فوراً اسلام قبول کر لیا تھا۔
اس مناظرے کے بعد ہر جگہ انہیں ’’تقابل ادیان‘‘ کا سب سے بڑا ماہر سمجھا جانے لگا اور ہر جگہ انہیں دعوت دین کے لئے بلایا جانے لگا۔یوں بھارت کے رہنے والے انتہا پسند ہندوؤں کو فکر لاحق ہوئی کہ ان کے لوگ بھی گاہے گاہے اسلام کی طرف جا رہے تھے۔ یوں 21 جنوری 2006ء کو بھارت میں ہندوؤں کے سب سے بڑے عالم روی روی شنکر کے ساتھ ان کا ’’اسلام میں تصور خدا اور ہندو مذہب‘‘ کے موضوع پر مناظرہ ہوا تو انہوں نے شنکر کو تھوڑی ہی دیر میں بے بس کر دیا ۔یہ منظر دیکھ کر کتنے ہی ہندو مسلمان ہو گئے۔
اگلے سال یعنی 2007ء میں انہوں نے بمبئی میں سالانہ 10روزہ ’’امن کانفرنس‘‘ کا انعقاد شروع کیا ، جس میں دنیا بھر سے مبلغین اسلام جو ڈاکٹر ذاکر نائیک کے ساتھی تھے، آنا شروع ہوئے۔ وہ مذاہب عالم کا اسلام کے ساتھ تقابل پیش کرتے اور بے شمار لوگوں کو بے ساختہ اسلام قبول کرنے پر مجبور کر دیتے۔
یہ سلسلہ 2012ء تک جاری رہا، جب اس کانفرنس میں ریکارڈ 10لاکھ لوگ شریک ہوئے تو بھارتی انتہا پسند ہندو سماج ہل کر رہ گیا۔ ان دنوں بھارت میں نریندر مودی کو وزیراعظم بنائے جانے کی مہم عروج پر پہنچنے لگی تو انتہا پسند ہندو تنظیمیں متحرک ہو چکی تھیں۔ انہوں نے یہ کہہ کر کہ ڈاکٹر ذاکراسلام کے ساتھ ہندو مت کا تقابل کرکے ان کی توہین کے مرتکب ہوئے ہیں، سالانہ کانفرنس کے خلاف تحریک شروع کرکے اسے رکوا دیا۔ اس پر ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کانفرنس چنائی میں منعقد کرنے کا اعلان کیا تو وہاں بھی ایسی ہی صورتحال پیدا کر دی گئی۔
ان حالات کی وجہ سے عرصہ چار سال سے یہ کانفرنس منعقد نہ ہو سکی لیکن ’’جس کا اللہ تعالیٰ حامی ہو ، اسے کون مٹا سکتا ہے‘‘ کے مصداق ڈاکٹر ذاکر کی دعوت کا سلسلہ ان کے پیس ٹی وی، ویڈیو ریکارڈنگز، تحریروں، انٹرنیٹ اور غیر ملکی دوروں کے ذریعے جاری رہا۔ پیس ٹی وی نے ایسی مقبولیت حاصل کی کہ اس کے ناظرین کی تعداد 10 کروڑ سے تجاوز کرنے لگی۔
انہوں نے 2006میں پیس ٹی وی انگلش کا آغاز کیا تو جلد ہی یہ مسلم دنیا کا سب سے بڑا چینل بن گیا جو دنیا کے 200 سے زائد ملکوں میں دیکھا جا رہا ہے ، جس کے اب بھی 25 فیصد ناظرین غیر مسلم ہیں۔
انہوں نے 2011ء میں بنگلہ جبکہ 2015ء میں چینی زبان میں چینل کی نشریات کا آغاز کیا۔
ڈاکٹر ذاکر کے لئے اس سے پہلے مشکل مرحلہ اس وقت آیا جب جون 2010ء میں انہوں نے کینیڈا اور برطانیہ کے دورے کی تیاری کی تو وہاں موجود قادیانی لابی نے حکومتوں سے شکایت کی کہ یہ مبلغ قادیانیوں اور مقامی حکومتوں کے لئے خطرہ ہیں، یوں انہیں داخلے سے روک دیا گیا۔ یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ قادیانی فتنے کی بنیاد جس انگریز نے رکھی، وہی اب تک اس شجرۂ خبیثہ کی خوب آبیاری کر رہے ہیں اور دنیا بھر میں ہر طرح کی مدد و تعاون سے اس زہریلے سانپ کو پال پوس رہے ہیں۔
2010 میں ہی بھارتی نشریاتی ادارے ’’انڈین ایکسپریس‘‘نے انہیں ملک کی 90 ویں بااثر شخصیت قرار دیا تو 2011ء میں ان کا درجہ 89 واں تھا۔قبل ازیں 2009ء میں انہیں بھارت کے مختلف مذاہب کے 10بڑے مذہبی مبلغین میں تیسرے درجے پر رکھا گیا تھا۔
2011 سے 2014 تک امریکہ کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی نے انہیں دنیا کی 500 بااثر ترین شخصیات میں مسلسل برقرار رکھا۔ ان کی انہی خدمات کے اعزاز میں 29 جولائی 2013ء کو انہیں متحدہ عرب امارات کے نائب صدر اور دبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم کی جانب سے 2013ء کی بہترین مسلم شخصیت قرار دے کر ’’بین الاقوامی قرآن ایوارڈ‘‘ دیا گیا جس کے ساتھ انہیں ساڑھے سات لاکھ درہم انعامی رقم ملی جو انہوں نے پیس ٹی وی کے لئے وقف کر دی۔
اسی سال انہیں ملائشیا کے بادشاہ نے ملک کا سب سے بڑا ایوارڈ عطا کیا۔ 16جنوری 2014ء کو شارجہ کے حکمران شیخ ڈاکٹر سلطان بن محمد القاسمی نے اسلام کیلئے خدمات پر انہیں شارجہ ایوارڈ سے نوازا۔
25 اکتوبر 2014ء میں انہیں گیمبیا کے یوم آزادی کا واحد مہمان خصوصی بنا کر مدعو کیا گیا تھا جہاں انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی گئی۔
یکم مارچ 2015ء کو سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے خود انہیں مسلم دنیا کا سب سے بڑا تمغہ ’’شاہ فیصل ایوارڈ‘‘ عطا کیا، جس کے ساتھ ملنے والی ساڑھے سات لاکھ ریال کی انعامی رقم انہوں نے ’’اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن‘‘ کو عطیہ کر دی۔
اس وقت فیس بک پر ان کا پیج مسلم دنیا کی تمام شخصیات میں سب سے مقبول اور سب سے زیادہ تیزی سے پسندیدگی حاصل کرنے والا کا اعزاز رکھتا ہے جو ڈیڑھ کروڑ سے زائد (لائکس) لے چکا ہے۔ اور اب تک ڈاکٹر ذاکر نائیک کی انٹرنیٹ پر تمام ویبسائٹ کے تعداد 62 لاکھ ہے جو دنیا واحد مسلم ہیں کہ ان کہ اتنی ویبسائٹ موجود ہیں ۔
اور 2020 میں الجزیرہ نیوز کے سرچ کے مطابق 2016 سے 2020 تک 11 لاکھ غیر مسلموں کو مسلمان بنایا ۔
اور ایک سروے کے مطابق ڈاکٹر ذاکر نائیک دن میں تقریبا 18 گھنٹے سٹڈی اب بھی رکھتے ہیں۔
اور یکم جولائی 2016ء کو ڈھاکہ میں دہشت گردانہ حملے کے بعد اسلام دشمن بنگالی اور بھارتی میڈیا نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خلاف اب تک طوفان بدتمیزی بپا کر رکھا ہے کہ ایک حملہ آور نے ان کا فیس بک پیج لائیک کر رکھا تھا اور اس نے ان کے خطابات انٹرنیٹ پر شیئر کئے تھے۔
بنگلہ دیشی حکومت نے پہلے ان کے چینل اور پھر تنظیم پر پابندی عائد کر دی تو وہی کچھ اب بھارت میں ہو رہا ہے ۔ ان کی آواز کو پابند سلاسل کرنے کے لئے بھارت کے چوٹی کے دماغ اور ساری مشینری دن رات سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہے۔
ان کے خلاف نئی قانون سازی کی جارہی ہیں تو راستے بند کرنے کے لئے دماغ لڑائے جا رہے ہیں۔
نیز ھندوستان کے پنڈتوں نے ان کے خلاف مہم چلائی اور مسلم علماء کو استعمال کرکے ان کے خلاف فتوے شائع کیے ۔ حتی کہ بھارتی حکومت نے آپ کو جلاوطنی پر مجبور کیا ۔ اس وقت ملائیشیا کے سربراہ حکومت مہاتیر محمد نے پ کو دعوت دی اور ملائیشن شہریت دے دی ۔ اور یوں ملائیشیا منتقل ھو کر آپ تب سے اپنے دعوتی عمل کو جاری رکھے ھوئے ھیں ۔ 🤲 اللہ پاک ان کی عمر میں برکت ڈال دے ۔ اور اسلام کی دعوت کے لیے زندہ سلامت رکھے آمین.
Comments