چند باتیں۔۔۔۔ کچھ یادیں
تحریر:حافظ محمد ندیم عنصر(دینہ)
کسی زمانے میں ہم جہلم کے پرانے پل کے ذریعے تانگے پر بیٹھ کر اپنے "نانکے" جایا کرتے تھے۔ تانگے میں تین لوگ آگے اور تین پیچھے اور بچے کھڑے ہو کرجاتے۔ کوچوان ایک پاؤں پر ہی کھڑا ہو جایا کرتا تھا۔ جہلم کا دریا پانی سے لبا لب بھرا ہوتا اور پرندے پانی کے اوپر ادھر ادھر اڑتے اور پانی میں سے کچھ پکڑنے کے لیے ہلکی سی ڈبکی لگاتے نظر آتے۔ ان کی آوازیں اور موجیں مارتا دریا، بہت بھلا لگتا تھا۔ اوپر گھوڑے کے چلنے سے پیدا ہونے والی آواز "ٹک ٹک ٹک"عجیب سماں پیدا کرتی، ہم لاری اڈے سے سرائے عالم گیر تک کا یہ طویل سفر بہت جوش و خروش سے طے کرتے اور آم کے جوس کے ایک ڈبے کا حصول ہماری بہت بڑی خواہش ہوتی جو کبھی کبھار ہی پوری ہوتی تھی۔ اس سفر کو مزید چار چاند بلکہ چھ چاند اس وقت لگ جاتے کہ جب کبھی ہم محو سفر ہوتے اور پل کے ساتھ لیٹی ٹرین کی خاموش پٹڑی جاگ جاتی اور ایک عدد ٹرین متوازی سمت سے زبردست ہارن کے ساتھ یا پھر مخالف سمت سے حملہ آور ہونے کی ناکام کوشش کرتی اور ہماری آواز "او ریل گڈی ، او ریل گڈی" ٹرین کے شور میں شاید ساتھ بیٹھی امی جی کو بھی نہ سنائی دیتی مگر چہرے پر خوشی اور جذبات کے تاثرات سے یقینا وہ خوش ہوتی ہوں گی۔ پھر یوں ہوا کہ وقت گزرا، ہم نے لاشعور سے شعور میں قدم رکھا اور ایک ذرا سی تبدیلی میں زندگی کا ایک حصہ مکمل بیت گیا ۔ پچھلے دنوں جہلم بچوں کو ان کے ننہال میں اتارا اور امی جی کے ساتھ اپنے ننہال کی طرف جانے کا ارادہ کیا۔ شاندار چوک سے دائیں طرف مڑ کر چھاؤنی جی ٹی روڈ پر آنے کا ارادہ تھا ، اچانک خیال آیا کہ کیوں نہ پرانے پل سے سرائے عالمگیر جایا جائے، بچپن کی یادیں بھی تازہ ہوں گی اور اس مہنگائی کے دور میں جہلم ٹول پلازے کے پورے تیس روپے بھی بچ جائیں گے۔ اس خیال کے آتے ہی میں نے سٹیرنگ لیفٹ پہ گھما دیا اور پرانے پل کی طرف جانے والی سڑک کا انتخاب کر لیا ۔ اب اس سڑک پر تانگے نہیں تھے۔ تانگوں کی جگہ پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے چنگ چی نے لےلی اور اکا دکا ہی پرائیویٹ گاڑی اور مقامی لوگوں کے موٹرسائیکل تھے۔ ٹوٹی پھوٹی انتہائی خستہ حالت میں موجود سڑک پر سے جب گاڑی ایک بڑے جھٹکے کے ساتھ پل کے اوپر آئی تو دل کی دھڑکن تیز ہوگئی ۔لمبی ٹھنڈی سانس لی اور تقریبا پینتیس سال پہلے کا بچہ اور اس وقت کا منظر آنکھوں کے سامنے آگیا اور ساتھ آج کا موجودہ منظر بھی ۔ پانی صرف چند گھڑوں میں تھا، پورا دریا خشک! کہ جس میں ان گنت بھینسیں اور بکریاں اپنے پیٹ پوجا میں مصروف تھیں ۔ بیس کی سپیڈ اور ہر پانچ سیکنڈ بعد ایک انتہائی زبردست جمپ کہ جس پر گزرتے ہوئے ایک عجیب سی آواز "ٹھک'' آتی ۔ بچے کرکٹ کھیلنے میں مصروف تھے اور خوب خشک دریائی کا فائدہ اٹھا رہے تھے ، "ٹھک" درختوں کے جھرمٹ جنگل کا سماں پیش کر رہے تھے "ٹھک"، سڑک کے کنارے تحفظ کے لیے بنائے گئے جنگلیں جگہ جگہ سے ٹوٹے ہوۓ اور ٹیڑھے تھے، "ٹھک" ایک گڑھے میں موجود انتہائی بوسیدہ کشتی اپنی عظمت رفتہ کے قصے بیان کر رہی تھی "ہم بھی کبھی رواں دواں تھے تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو"، "ٹھک" ریلوے پٹری کے ساتھ تھوڑے وقفے سے بنائے گئے سیف پلیسز کی یہ حالت ہو چکی تھی کہ اس پہ بندہ اگر پہنچ جائے تو ٹرین کی زد میں آکر اوپر پہنچنے سے تو بچ جائے گا مگر یہاں آیا تو نیچے ضرور جائے گا، "ٹھک"، پرندے اب موج مستیاں تو نہیں کر رہے تھے مگر اپنے گھونسلوں میں چپکے سے بیٹھے اوپر فضا میں حسرت بھری نگاہوں سے دیکھے جا رہے تھے "ٹھک" مختلف جگہوں سے ٹرالیاں شاید ریت بھر رہی تھیں ،جن کا کہنا تھا کہ چلو ریت ملک کی 'تعمیر' میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ "ٹھک" پل کے اختتام پر آدھا گیٹ بند تھا جو شاید بڑی گاڑی کے داخلے پر پابندی کا نشان تھا ، باہر پولیس اہلکار وردی میں ملبوس فرائض منصبی ادا کر رہا تھا ۔ اس کراسنگ کے چکر میں مجھے ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ بچپن کی یاد تازہ ہو گئی مگر بے چینی اور خفکی میں شدید اضافہ ہو گیا۔ ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ پورے تیس روپے بچ گئے مگر گاڑی کا ایک ایک جوڑ ہل گیا۔ شارٹ راستے سے سرائے عالمگیر شاید کلومیٹر میں کم پڑا مگر اگلے تین چار گھنٹے تھکاوٹ کے اثرات نہ گئے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ سفر نامہ آپ کو کیوں سنا رہا ہوں؟ پوچھنا یہ تھا کہ ہم آگے جا رہے ہیں یا پیچھے؟؟
What a brilliant way for your explanations. For few moments, I found myself in your story.. Stay blessed.
Very nice Hafiz shab MashAllha