حلقہ پی پی 26 اور این اے 61 کی سیاسی صورتحال۔ رپورٹ:شیخ عبدالعزیز دھریالہ جالپ
حلقہ Na61 میں چوہدری فرخ الطاف سمیت کئی امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرانے لیکن چوہدری فرخ الطاف کی ٹکر کا کوئی امیدوار سامنے نہ آ سکا۔۔۔۔۔یہ بات بھی لکھی جانے تو غلط نہ ہوگا کہ این اے 61 کے تمام امیدواروں کے ووٹوں کی گنتی کی جائے اور دوسری طرف چوہدری فرخ الطاف کے ووٹوں کی گنتی کی جائے تو پھر بھی چوہدری فرخ الطاف ان درجن بھر امیدواروں پر سبقت لے جائیں گے حلقہ پی پی 26 میں نون لیگ بمقابلہ نون لیگ سیاسی کشیدگی اور کھینچاتانی کارنر میٹنگز بڑے دھڑلے سے جاری نون لیگ کے ٹکٹ بولڈرتذبذب کا شکار بلے کا نشان ختم کرنا تحریک انصاف کے ووٹروں سمیت عوام کے ساتھ سخت زیادتی بلے کا نشان اسی وجہ سے ختم کر دیا گیا تا کہ تحریک انصاف کو کئی حصوں میں تقسیم کیا جا سکے عدالتی فیصلے کی وجہ سے تحریک انصاف سے بلے کا نشان چلا گیا جو جمہوریت کے خلاف سازش ہے اس سلسلے میں علاقہ دھریالہ جالب اور پنڈ دادن خان کے پی ٹی ائی ورکروں کا رد عمل بھی سامنے آیا بلے کا نشان اج بھی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے حلقہ پی پی 26 میں ہر امیدوار برائے صوبائی اسمبلی نے اپنے پینا فلیکس پر عمران خان کی تصویر لگائی ہوئی ہے عوام الناس کو پتہ ہی نہیں چل رہا کہ کون سا امیدوار پی ٹی ائی کا ہے اور عمران خان کے دیوانے بلے کا نشان ختم ہونے کی وجہ سے سخت پریشانی میں مبتلا ہیں درجنوں امیدوار برائے صوبائی اسمبلی پی ٹی آئی کے امیدوار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن کسی امیدوار کا پتہ نہیں چلتا الیکشن تک ہر گھڑی اور ہر لمحہ سیاسی صورتحال تبدیل ہو رہی ہے کئی امیدوار این اے 61 سے اور کئی امیدوار حلقہ پی پی 26 سے الیکشن میں دستبردار ہو جائیں گے بڑے بڑے الیکشن میں دعوی کرنے والے امیدوار برائے اسمبلی حلقہ کی عوام کو نظر ہی نہیں ائیں گے کروڑوں روپے خرچ کرنے والے امیدوار برائے صوبائی اسمبلی صرف چند ہزار ووٹ ہی حاصل کر سکیں گے یہ قیاس ارائیاں حلقہ پی پی چھبیس میں کی جا رہی ہیں کچھ امیدواروں نے قبل از وقت نون کا ٹکٹ بھی اپنی جیب میں رکھا ہوا تھا جو وقت انے پر امیدوار برائے اسمبلی کو اپنی اوقات کا اندازہ ہو گیا جس وجہ سے کئی امیدواروں نے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا الیکشن سے دستبردار ہونا امیدواروں کی اپنی ہی مجبوری ہوگی کیونکہ چند ہزار ووٹ لے کر ان کو اپنی پوزیشن کا پتہ چل جائے گا اس سے بہتر ہے کہ وہ دوسرے امیدوار کے حق میں دستبردار ہو جائیں اگر طالب مہدی الیکشن سے دستبردار ہو جاتے ہیں تو اس کا فائدہ چوہدری فرخ الطاف کو ہوگا اور اگر طالب مہدی الیکشن لڑتے ہیں تو پھر بھی فرخ الطاف کے کامیابی کے قوی چانس موجود ہیں فرخ الطاف کونون لیگ کا ٹکٹ عمران خان کی حکومت گرانے میں کمنٹمنٹ کا حصہ تھا جو این اے 60 کی بجائے این اے 61 کا دے دیا گیا اور ویسے بھی میاں برادران کو مضبوط ترین امیدوار کی ضرورت تھی جو ان کو چوہدری فرخ الطاف کی صورت میں مل گیا ہر پارٹی کے سربراہ کے نزدیک یہ کوئی اہمیت نہیں کہ کس ورکر کی قربانیاں زیادہ ہیں انہیں تو صرف حلقہ میں مضبوط امیدواروں کی ضرورت ہوتی ہے پیپلز پارٹی کی پنڈ دادن خان میں مقبولیت نہیں ہے لیکن نذر حسین گوندل کے پچھلے ادوار میں ترقیاتی کاموں کی وجہ سے اچھی خاصی شہرت یافتہ ہیں وہ نون لیگ کے ٹکٹ ہولڈر حاجی ناصر للہ کا مقابلہ کر سکیں گے نون لیگ کے ے یہ امیدوار جنہوں نے نون کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے حربے بھی اپنائے مگر نون کا ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ان کے کچھ چند سو ووٹ ذاتی بھی ہیں اور کچھ نون لیگ کے ووٹر بھی ان کو ووٹ دیں گے جس کا نقصان ٹکٹ ہولڈر حلقہ پی پی 26 حاجی ناصر للہ کو ہوگا قومی و صوبائی اسمبلی کے امیدوار صرف اور صرف ٹکٹ کے حصول کی خاطر میاں نواز شریف کے استقبال کے لیے لاہور بھی پہنچنے کی کوشش کی ورنہ نواز شریف سے کوئی ان کی ذاتی رشتے داری تو نہیں تھی مگر نواز شریف نے انہیں اگنور کر دیا اور اپنی پارٹی کی استقامت کو دیکھتے ہوئے مضبوط ترین امیدوار حلقہ این اے 61 اور پی پی 26 سے چوہدری فرخ الطاف اور حاجی ناصر للہ کو ٹکٹ دے دیے چوہدری فرخ الطاف ایم این اے بھی رہ چکے ہیں اور ضلعی ناظم جہلم بھی ان کے حلقہ این اے 61 میں ووٹ اس وقت بنے تھے جب وہ ضلع ناظم تھے اور اب انہیں نون لیگ کے ووٹر بھی سپورٹ کرتے ہوئے ان کی کامیابی کی نشاندہی کرتے ہیں چوہدری فرخ الطاف کا جوڑ غلام مصطفی کندوال سے ضرور پڑتا اگر بلے کا نشان غلام مصطفی کندوال کو مل جاتا لیکن بلے کا نشان نہ ملنا ہی تحریک انصاف کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے حلقہ پی پی 26 سے چوہدری نذر حسین گوندل تیمور نواز جٹ راجہ افتخار شہزاد و دیگر امیدوار برائے صوبائی اسمبلی اچھی خاصی شہرت کے تو حامل ضرور ہیں مگر ناکامی ان کے سر چڑھ کر بول رہی ہے چوہدری نذر حسین گوندل اس سے قبل ایم پی اے بھی رہ چکے ہیں اسی وجہ سے اپنا کچھ ذاتی ووٹ بینک بھی رکھتے ہیں اور حلقے میں پچھلے دور حکومت میں ترقیاتی کاموں کی وجہ سے اچھی خاصی شہرت رکھتے ہیں لیکن چونکہ وہ پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں اور پنڈ دادن خان میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت بہت ہی کم ہے اس وجہ سے ان کو ووٹ کم ہی ملیں گے راجہ افتخار شہزاد تحصیل ناظم رہ چکے ہیں تو کچھ نہ کچھ ذاتی تعلقات کی بنا پر چند ہزار ووٹ ان کے ذاتی بھی ہیں اور اب چونکہ راجہ فیملی جو نون لیگی تھے وہ حاجی ناصر للہ کی بجائے راجہ افتخار شہزاد کو سپورٹ کریں گے اور اسی طرح تیمور نواز جٹ کے چچا چوہدری مظفر بھی نون لیگ کے ٹکٹ پر چیئرمین یونین کونسل دھریالہ جالپ بنے تھے ان کے سینکڑوں حامی جو نون لیگی ہیں وہ بھی ٹکٹ ہولڈر حاجی ناصر للہ کی بجائے تیمور نواز کو کامیاب کرانے کے لیے زور لگائیں گے اس طرح چھ سات ہزار ووٹ حاجی ناصر للہ کو مزید کم پڑنے کے چانس ہیں جس کا نقصان ٹکٹ ہولڈر حاجی ناصر للہ کو ضرور ہوگا اور کچھ امیدوار برائے صوبائی اسمبلی سابقہ ایم پی اے شمس حیدر جب آزاد حیثیت میں الیکشن لڑے تھے جو دو ہزار ووٹ بھی نہ لے سکے تھے کا حشر دیکھتے ہوئے الیکشن سے دستبردار ہو جائیں گے غلام مصطفی کندوال وارث اعوان جو تحریک انصاف کے امیدوار ہیں پی ٹی ائی کا ووٹ ان کو ضرور جائے گا لیکن بلے کا نشان نہ ملنے کی وجہ سے اکثریت سے محروم رہ جائیں گے حلقہ این 61 اور حلقہ پی پی 26 میں ابھی بھی بلے کا نشان ابھی تک کامیابی کی نشاندہی کرتا ہے ہر پل سیاسی صورتحال بدلتی رہتی ہے امیدوار اسمبلی کامیابی کے لیے لوگوں کی منت سماجت کرتے نظر آرہے ہیں لیکن کچھ امیدواروں نے اپنے ہی گھروں محلوں اور اپنے ہی آبائی گاؤں میں شکست کا سامنا بھی کرنا پڑے گا کیونکہ انہوں نے اپنے ہی گلی کے اپنے ہی گھروں کو مضبوط نہیں کیا وہ اپنے ہی پولنگ سٹیشن سے مات کھا کر عوام کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے اس مرتبہ حلقہ پی پی 26 میں ایسے امیدوار برائے صوبائی اسمبلی نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے جو کونسلر کا الیکشن بھی نہیں لڑ سکتے راجہ مطلوب مہدی کو ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے طالب مہدی کو میدان میں اسی وجہ سے اتارا گیا ہے کہ چوہدری فرخ الطاف کو اس کا نقصان ہو اور میاں برادران کو چوہدری فرخ الطاف کی پوزیشن کا پتہ چل سکے اور اگر طالب مہدی کامیاب بھی ہوتے ہیں تو پھر بھی ووٹ نواز شریف نون لیگ کو ہی جائے گا نون لیگ کا ووٹ کئی حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے اور نون لیگ کا مقابلہ نون لیگ سے ہی ہونے جا رہا ہے تاہم چوہدری فرخ الطاف کا پلڑا ابھی تک بھاری نظر ارہا ہے ابھی تک واضح اکثریت چوہدری فرخ الطاف کی نظر ارہی ہے فواد چوہدری یا فیصل چوہدری الیکشن لڑ کے دیکھیں گے کہ ان کے خوشامدی ٹولے بھی ان کو ووٹ نہیں دیں گے ان کو برانڈ سمجھنے والے بھی ہوا کا رخ دیکھ چکے ہیں اور اس خوشامدی ٹولے نے بھی فواد چوہدری کو یا فیصل چوہدری کو مسترد کر دیا ہے تاہم ان کے پی ٹی ائی کے دور حکومت میں کچھ ذاتی حیثیت میں ووٹ بنے تھے وہ ان کو ضرور ملیں گے ان حضرات کے علاوہ کوئی بھی امیدوار الیکشن لڑتا ہے تو پھر بھی اصل مقابلہ چوہدری فرخ الطاف اور طالب مہدی کے درمیان ہی نظر ارہا ہے اور اگر طالب مہدی الیکشن سے دستبردار ہو جاتے ہیں تو پھر چوہدری فرخ الطاف کا مقابلہ غلام مصطفیٰ سے ہوتا ہوا نظر آتا ہے جبکہ حلقہ پی پی 26 سے نون لیگ کے ٹکٹ ہولڈر حاجی ناصر للہ پیپلز پارٹی کے چوہدری نذر حسین گوندل اور تحریک انصاف کے وارث اعوان کے درمیان ہونے کی توقعات ہیں کچھ امیدوار یقینا الیکشن سے دستبردار بھی ضرور ہوں گے ہر پل بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال این اے 61 اور پی پی 26 میں دلچسپ ہوتی جا رہی ہے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور کون امیدوار کتنے پانی میں ہے ضرور پتہ چل جائے گا
Comments