پاکستان کے عام انتخابات (2024) سے جُڑے اہم حقائق کی تفصیل اور چند ضروری سوالوں کا جواب
انتخاب و ترتیب
ڈاکٹر فیض احمد بھٹی
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد چند گھنٹوں کی دوری پر ہے۔ یہ ملک کی تاریخ میں بارھویں عام انتخابات ہیں۔ جس کے نتیجے میں عوام کو حق رائے دہی کے تحت اپنے نمائندے اسمبلیوں میں بھیجنے کا موقع ملے گا۔
ان انتخابات کے حوالے سے چند اہم حقائق اور سوالوں کا جواب اس رپورٹ میں ملاحظہ فرمائیے!
الیکشن کب ہوں گے؟ رواں ہفتے کی آٹھ فروری کو پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہو رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں ملک میں نئی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کا قیام عمل میں آئے گا۔ تاہم یہ انتخابات کافی متنازع حالات میں منعقد ہو رہے ہیں جن میں سے ایک "التوا" کا معاملہ بھی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں سنہ 2018 کے عام انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی قومی اسمبلی کی مدت 13 اگست 2018 سے شروع ہوئی تھی اور اس کی پانچ سال کی مقررہ مدت 12 اگست 2023 کی رات 12 بجے مکمل ہونا تھی۔ تاہم اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف نے مقررہ مدت سے قبل ہی 9 اگست کو اسمبلی تحلیل کر دی تھی جس کے بعد سے اب تک ملک میں نگران حکومت کام کر رہی ہے۔ آئین کے تحت عام انتخابات اسمبلی کی تحلیل کے 90 دن بعد ہونا تھے تاہم سابقہ حکومت کی جانب سے مردم شماری کی منظوری کے بعد الیکشن کا انعقاد التوا کا شکار ہوا۔ عمران خان کی جماعت تحریک انصاف نے جنوری 2023 میں دو صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اسمبلیاں تحلیل کر دی تھیں اور اس وقت سے وہاں بھی نگران حکومتیں قائم ہیں۔
کتنی سیٹوں پر انتخابات ہوں گے؟ پاکستان الیکشن کمیشن کے مطابق ملک بھر سے قومی اسمبلی کی 266 نشستیں جبکہ صوبائی اسمبلیوں کی عام نشستوں کے 593 حلقے ہوں گے۔ سنہ 2018 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی کل نشستیں 272 تھیں جبکہ صوبائی اسمبلیوں کی کل نشستیں 577 تھیں۔ خواتین کےلیے مخصوص ساٹھ اور اقلیتوں کی دس مخصوص نشستوں کو ملا کر اب قومی اسمبلی کی مجموعی 342 نشستیں کم ہو کر 336 رہ گئی ہیں۔ گذشتہ الیکشن کے مقابلے میں اس تبدیلی کی ایک اہم وجہ قبائلی علاقوں کا خیبر پختونخوا میں انضمام ہے۔
25 ویں آئینی ترمیم کے تحت فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا گیا اور پھر اس کی 12 نشستیں کم کر کے چھ کر دی گئیں اور وہ خیبر پختونخوا کے کوٹے میں شامل کر دی گئیں۔ یوں اس صوبے کا قومی اسمبلی کا کوٹہ 39 نشستوں سے بڑھ کر 45 تک پہنچ گیا۔ مگر قومی اسمبلی کی مجموعی نشتیں 342 سے کم ہو کر 336 رہ گئیں۔ یعنی قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کرنے اور وفاق میں حکومت بنانے کے لیے 169 سیٹیں درکار ہوں گی۔
کون سی بڑی جماعتیں الیکشن میں حصہ لیں گی؟ پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت متعدد سیاسی جماعتیں ان انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ تاہم یہ تین جماعتیں 2018 کے الیکشن میں بالترتیب پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر تھیں۔ گذشتہ عام انتخابات میں چوتھے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ آزاد امیدواروں نے حاصل کیے تھے۔ اس بار الیکشن کمیشن کے انٹرا پارٹی الیکشن پر فیصلے کے بعد تحریک انصاف کو بلے کا نشان نہیں مل سکا تو اس جماعت کے تمام امیدوار آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیں گے یوں پی ٹی آئی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں سے بھی محروم رہے گی جس کےلیے ان کا کسی دوسری جماعت سے الحاق ممکنہ ہے۔ اگر 2018 کے انتخابات کے نتائج کا جائزہ لیا جائے تو قومی اسمبلی میں تحریک انصاف نے مجموعی طور پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے جن کی تعداد ایک کروڑ اڑسٹھ لاکھ اٹھاون ہزار نو سو تھی۔ دوسرے نمبر پر پاکستان مسلم لیگ نواز نے ایک کروڑ اٹھائیس لاکھ چھیانوے ہزار تین سو چھپن ووٹ حاصل کیے تھے۔ جبکہ پیپلز پارٹی انہتر لاکھ آٹھ سو پندرہ ووٹ کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھی۔ آزاد امیدواران نے ساٹھ لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ متحدہ مجلس عمل پچیس لاکھ ووٹ حاصل کر کے پانچویں نمبر پر تھی۔ تاہم تحریک انصاف کو ماضی کے انتخابات کے مقابلے میں اس بار مشکلات کا سامنا ہے۔ پارٹی سربراہ عمران خان کو سائفر، توشہ خانہ اور مبینہ طور پر دورانِ عدت نکاح کرنے سے متعلق مقدمات میں قید کی سزا سُنائی جا چکی ہے۔ وہ نا اہلی کے سبب ذاتی طور پر انتخابی دوڑ سے باہر ہو گئے ہیں۔
ووٹ کون ڈال سکتا ہے؟ الیکشن کمیشن کے مطابق پاکستان کے بارہ کروڑ انہتر لاکھ اسی ہزار دو سو بہتر افراد بطور ووٹر رجسٹرڈ ہیں۔ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 26 کے مطابق ایک شخص انتخابی علاقے میں بطور ووٹر اندراج کا حقدار ہو گا اگر وہ: (1) پاکستان کا شہری ہے۔ (2) عمر 18 سال سے کم نہ ہو۔ (3) انتخابی فہرستوں کی تیاری، نظرثانی یا تصحیح کے لیے دعوؤں، اعتراضات اور درخواستوں کو مدعو کرنے کے لیے مقرر کردہ آخری دن تک کسی بھی وقت نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی کی طرف سے جاری کردہ قومی شناختی کارڈ رکھتا ہو۔ (4) کسی مجاز عدالت کی طرف سے اسے ناقص دماغ قرار نہ دیا گیا ہو۔ (5) سیکشن 27 کے تحت انتخابی وضاحت/نوٹ: نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی طرف سے جاری کردہ قومی شناختی کارڈ کو بطور ووٹر رجسٹریشن کے مقصد کےلیے یا الیکشن میں ووٹ ڈالنے کےلیے درست سمجھا جائے گا، باوجود اس کے کہ اس کی میعاد ختم ہو جائے۔
اپنا ووٹ کیسے چیک کیا جا سکتا ہے؟ ووٹ کی تصدیق کرنا بے حد آسان ہے، شاید ووٹنگ کے عمل میں سب سے آسان کام یہی ہے۔ ای سی پی کی ویب سائٹ کے مطابق ووٹنگ لسٹ میں اپنی رجسٹریشن چیک کرنے کے دو طریقے ہیں۔ مگر ہم آپ کی معلومات کےلیے آپ کو ایک تیسرا طریقہ بھی بتائیں گے۔
پہلا طریقہ: ایس ایم ایس (SMS) سروس
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نادرا کے تعاون سے عوام کو ایس ایم ایس (SMS) سروس فراہم کرتا ہے جس کے ذریعے شہری اپنی رجسٹریشن چیک کر سکتے ہیں۔ 1۔عوام شناختی کارڈ نمبر درج کر کے اور 8300 نمبر پر ٹیکسٹ میسج بھیج کر معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ 2۔ایس ایم ایس کے جواب میں خود کار پیغام موصول ہو گا جس میں تین چیزیں ہوں گی، انتخابی علاقے کا نام، بلاک کوڈ اور سیریل نمبر۔
دوسرا طریقہ: ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کے دفاتر میں موجود لسٹ ہر رجسٹرڈ ووٹر اپنے متعلقہ ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کے دفتر میں جا کر اپنی تفصیلات دیکھ سکتا ہے، جہاں حتمی ووٹر لسٹ دستیاب ہے۔ چاروں صوبوں میں ڈی ای سی کے دفاتر کے پتے یا رابطے کی معلومات الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر دیکھی جا سکتی ہیں۔
تیسرا طریقہ: ڈسپلے سینٹرز میں موجود لسٹ ووٹرز ڈسپلے سنٹرز جا کر فہرستوں میں اپنے نام بھی چیک کر سکتے ہیں۔ البتہ یہ مراکز سارا سال دستیاب نہیں ہوتے۔ ڈسپلے سینٹرز وہ مراکز ہیں جنھیں ای سی پی ملک کے مختلف علاقوں میں جب بھی ضرورت محسوس کرتا ہے تو تقریباً 21 دنوں کے لیے قائم کرتا ہے۔ جہاں تک پنجاب اور کے پی کے 2023 کے صوبائی انتخابات کا تعلق ہے تو اب ڈسپلے سینٹرز قائم نہیں کیے جائیں گے۔ ان ڈسپلے سینٹرز اور ڈسپلے پیریڈ کے بارے میں مزید تفصیل نیچے لکھی گئی ہے تاکہ قارئین بہتر طور پر سمجھ سکیں۔
الیکشن کا نتیجہ کب آئے گا؟ آٹھ فروری کو انتخابی عمل مکمل ہونے کے ساتھ ہی ووٹوں کی گنتی کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔ پہلے پولنگ سٹیشن کا نتیجہ مرتب کیا جائے گا اور مرحلہ وار الیکشن کمیشن کی جانب سے ہر حلقے کا انفرادی نتیجہ شائع کیا جائے گا۔ عام طور پر اس عمل کو مکمل ہونے میں چوبیس گھنٹوں تک کا وقت لگ جاتا ہے۔ تاہم دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات کے بعد نتائج سامنے آنے میں غیر معمولی تاخیر ہوئی تھی جس پر اس وقت کے الیکشن کمیشن کا موقف تھا کہ نتائج کو مرتب کرنے والے "آر ٹی ایس سسٹم" نے کام چھوڑ دیا تھا۔
ہماری دعا ہے اللہ کریم اس الیکشن کو بخیر و عافیت پایا تکمیل تک پہنچائے اور ملک و قوم کےلیے باعث خیر و برکت بنائے، آمین!
Commenti