والدین کے ساتھ حسن سلوک
تحریر :حضرت امیر محمد اکرم اعوان رح
اللہ کریم سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 83میں ارشاد فرماتے ہیں:
اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قرابت داروںاور یتیموں اور مسکینوں سے اور لوگوں سے اچھی بات کہو اور نماز قائم رکھو اورزکوٰۃ دوپھر تم میں سے سوائے چند لوگوں کے تم (اس سے) پھر گئے اور تم پھر جانے والے (عہدشکن) ہو۔وبالوالدین احسانا
والدین جوانسان کو دنیا میں لا نے کا سبب بنے ہیں، اُن کے ساتھ احسان کے ساتھ پیش آئو،محبت سے پیش آئو، اُن کی خدمت بجا لائو۔ والدین کی عظمت بحیثیت والدین اپنی جگہ ہے۔ اگر وہ خدا نخو استہ نیک نہیں ہیں یا بعض اوقات ایک بندہ اچھا مو من ہے اور اُس کے والد یا والدین مو من نہیں ہیں تو بطور والدین ان کا بھی احترام واجب ہے۔ اﷲ کے حکم کے خلاف اُ ن کی بات نہیں ما نی جا ئے گی، بات اﷲ کی ما نی جا ئے گی لیکن بات نہ ماننا اور بات ہے اور اُن سے تو ہین آمیز، ہتک آمیز سلوک یا سخت رویہ اور بات ہے۔میدانِ بد ر میں جب افو اج مقابل ہو ئیں تو مکہ کی طر ف سے مبا رزت کے لئے جو آدمی باہر نکلا، اُس کا بیٹا نبی کریمﷺ کے ہم رکاب تھا۔ اس نے پیش ہو کر اجازت چا ہی،اور عرض کیا کہ یا رسو ل اﷲﷺ! مجھے اجازت دیجئے، میرا والد ہے، اس کے مقابلے کے لئے میں جاتا ہو ں ۔آپ ﷺ نے فرما یا! وہ تمہیں دنیا میں لانے کا سبب بنا ہے، تم اُسے دنیا سے مٹانے کا سبب نہ بنو۔ آپ ﷺ نے اجازت نہیں فرمائی۔ دوسرا صحابی آپﷺ نے مقابلے پہ روانہ فرمایا لیکن بیٹے کو اجازت نہیں دی اب اس سے بڑا جرم کیا تھا کہ آدمی مشرک بھی ہو اور نبی اکرمﷺ کے مقابل تلوار لے کر کھڑا ہو ۔ فرمایا! جرم تو اُس کا بہت بڑا ہے لیکن اُس کے مقابلے کے لئے دوسرے لوگ ہیں، تمہیں زیب نہیں دیتا کہ اُس کے مقابل جائو۔
حضرت ابو بکر اور حضرت عبد الرحمن رضوان اﷲ تعالیٰ علیہما اکٹھے بیٹھے تھے۔ حضرت عبدالرحمنؓ بدر کے بعد اسلام لا ئے تھے ۔ با تو ں با تو ں میں بدر کی بات آگئی تو انہو ں نے عرض کیا،ابا جی !بدر کے روز آپ میری زد پہ آگئے تھے۔ اگر میں چا ہتا تو آپ کو قتل کر دیتا لیکن میں نے والد جان کر اپنا ہاتھ روک لیا۔ سید نا ابوبکر صدیق رضی اﷲتعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اﷲ کی قسم اگر تم میری زد پہ آ جا تے تومیں تمہارے پر خچے اُڑا دیتا۔ وہ کہنے لگے کہ آپ کو خیا ل نہ آتا کہ میرا بیٹا ہے۔ فرمایاوہ کیسا بیٹا جو رسو ل اﷲﷺ کے مقابل آئے، اُس کے ساتھ ہما را کیا رشتہ! یہ تووہ کیفیات ہیں جو لو گو ں کے دلو ں میں تھیں لیکن اس کے با و جو د والدین کا احترام اپنی جگہ پر مو جو د ہے۔ قرآن میں حکم ہے کہ اگر ا للہ کے حکم کے خلاف وہ حکم دیں فلا تطعھمااُن کی بات مت ما نو،اﷲ کی بات ما نو لیکن:
فلا تقل لھمااف ولا تنھر ھما و قل لھما قولا کریماہ سورۃ بنی اسرائیل:23اُن سے سخت بات نہ کر و، اُن سے نفرت نہ کرو،اُنہیں جھڑکو نہیں اور ہمیشہ اُن سے اچھی بات کرو، محبت بھر ی بات کرو ۔بزرگ کہتے ہیں کہ کسی بندے سے اگر تم تعلق بنا نا چاہتے ہو تو پہلا معیار تو یہ ہے کہ اُس کا تعلق اﷲ کریم سے کیسا ہے۔ اگر وہ اپنے خالق سے وفا نہیں کرتا تو تم کس برتے پہ دو ستی کرنے چلے ہو کہ وہ تم سے وفا کرے گا۔ اگر دنیا میں دیکھنا چاہو تو یہ دیکھو کہ اُس کا تعلق اپنے والدین سے کیسا ہے؟ اگر اُن کا احترام نہیں کرتا، اُن کی بات نہیں مانتا تو تم کو نسی دوستی کر نے چلے ہو کہ وہ تم سے وفا کرے گا۔
وذی القربی اور اقرباء،رشتہ داروں کے ساتھ اچھے طر یقے سے پیش آئو،احسان سے پیش آئو، نیکی سے پیش آئو،قطع رحمی نہ کرو، صلہ رحمی کر و۔رشتہ داروںکو اپنے ساتھ رکھو، اُن سے بگا ڑو نہیں۔ والیتمی والمسکیناور ایسے لو گ جو دنیو ی آسروں سے بے سہار ا ہو جا تے ہیں،جن میں یتیم ہوتے ہیں یا مسکین لو گ ہو تے ہیں اُن کا خیال رکھو۔ یتیموں کی نگہداشت کرو،کمزوروں، بے کسوں، غریبوں پر رحم کھا ئو اور اُن کی مدد کر و ۔ وقولو اللناس حسنا اور عمو ماً انسا نو ں سے اچھی بات کرو۔ہر انسا ن سے اچھی بات کر نے کی کوشش کرو۔ لوگوں کو طعنے مت دو، توہین آمیز کلمات نہ کہو بلکہ اچھی باتیں ثم تولیتم الا قلیلا منکم و انتم معرضون فرمایا تم اس بات سے پھر گئے، تم نے غیر اﷲ کی عبادت شر وع کر دی اور تم نے والدین کی نافرمانی شر وع کر دی، یتیمو ں، مسکینو ں کا مال کھانے لگ گئے اور عامۃ الناس سے تمہارا رو یہ اُس میثاق کے خلاف ہو گیا۔ تمہارا رویہ معاندانہ اور دشمنی کا ہو گیا۔ تو اﷲکریم نے ہر دین میں انسا نی معاشر ے کی اصلاح کا حکم اُسی طر ح دیا جس طر ح اپنی عبا دت کا حکم دیا ہے اور انسانو ں سے حسن سلوک اور تعلقات کو بہتر رکھنے کی ہمیشہ تاکید فرمائی ہے۔
Comments