top of page

مردان ِ حق (صوفیاء کی خدمات)تحریر: مولاناامیر محمد اکرم اعوان ؒ



مردان ِ حق (صوفیاء کی خدمات)

تحریر: مولاناامیر محمد اکرم اعوان ؒ

مسلمان کیا ہے؟مسلمان عالم انسانیت کاایک ایسافردہے، جس کی گردن اللہ کریم کی بارگاہ میں خم رہتی ہے،اللہ کریم کے علاوہ کسی کے سامنے جھکناگوارانہیں کرتا۔سوچ بھی نہیں سکتا کہ اللہ کریم کے علاوہ کسی بھی بارگاہ میں اس کاسرجھکے۔ حق پرقائم رہتا ہے،باطل سے سمجھوتے کرکے زندگی نہیں گزارتا۔یہ جودو لفظ ہیں مسلمان اور مجاہد، یہ دونوں ہم معنی ہیں،ایک ہی فردہے۔ جب وہ مسلمان ہے تووہ مجاہدبھی ہے اور غلبہ حق کے لیے اس کی ساری قوتیں ہمیشہ وقف رہتی ہیں۔اس کی زندگی، اس کی اولاد،اس کامال، اس کے سارے وسائل،احقاق حق اورابطال باطل کے لیے ہوتے ہیں۔ایک مسلمان جہاں رہتا ہے،جب تک رہتاہے۔ وہ حق کاعلمبدار اور باطل کا مخالف ہوتا ہے۔

جہاں تک صوفیاء کاتعلق ہے۔انہوں نے دوسروں سے ہزاروں گنا بڑھ کر قربانیاں دیں۔ یہ ایسے مردان حق تھے کہ کافر توکافر، بدکارمسلمان حکمرانوں کی بھی بات سنناگوارانہ کی،ان سے بھی مقابلہ کرتے رہے۔ یہیں برصغیرمیں دیکھ لیں۔آپ ملتان کی تاریخ پڑھیں اورپھر اس میں غوث بہاول الدین زکریا رحمۃ اللہ کا کردار پڑھیں۔اجمیر کی ریاستی تاریخ پر نگاہ ڈالیں توپورے برصغیر میں ہندوؤں کی سب سے قابل فخرریاست اور سب سے طاقت ور ریاست اجمیر تھی۔خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ جب وہاں وارد ہوئے تو آپ کی عمرنوے سال تھی۔تیس سال بعد، ایک سوبیس سال کی عمر میں آپ کا وصال ہواتوسوالاکھ کے لگ بھگ اجمیرکے لوگ آپ کے جنازے میں شریک تھے۔یہ کیا گوشہ نشینی سے یا مسکنت سے کام ہوتا ہے؟جہاں اسلام کا نام لینا جرم تھا۔وہاں کی نصف سے زیادہ آبادی کو تیس برسوں میں حضرت نے مسلمان کردیا۔ہندوستان پر اوراجمیرمیں آنے والے مسلمان حملہ آوروں میں ہمیشہ مقابلہ ہوتا رہا۔ فتح تو اسے ایک ولی اللہ نے کیا۔لڑائیاں ہوتی رہیں،ہارتے رہے جیتتے رہے۔اسی طرح ہمارے پاس پنجاب میں داتا صاحب معروف ہیں۔ لیکن آپ یہ بھی تو دیکھیں کہ ایک شخص کہاں سے چل کر کہاں پہنچا؟جب یہ لوگ ہندوستان تشریف لائے تو یہ آج والا ہندوستان نہیں تھا۔ برصغیر بین الاقوامی طاقت کامرکزتھا۔یہاں کی حکومتیں مضبوط ہوتی تھیں۔ یہاں کے مال ودولت کے چرچے تھے۔ جس مغرب میں آج ہم مزدوری کرنے کے لیے جاتے ہیں،یہ اہلِ مغرب برصغیرمیں مزدوری کرنے کے لیے آتا تھا۔مغرب کے لوگ خودکو خوش نصیب سمجھتے تھے کہ یہاں انہیں روزگار مل جائے۔اس وقت کے ان طاقتور حکمرانوں کے مقابلے میں ہزاروں میل دورسے یہاں آکر ان لوگوں نے بیٹھ کرحق کی تبلیغ کی اورباطل کوللکار ا۔مسلمان اگر مردحق اور مجاہدہے تو ایک ولی اللہ تو اس سے کروڑوں گنا زیادہ مرد حق، زیادہ کام کرنے والا،زیادہ جم کر رہنے والا،زیادہ حق کاساتھ دینے والااور باطل کے لیے ہمیشہ لرزاں براندام رکھنے والافرد ہوتا ہے۔ولایت کی نشانی یہ ہے کہ باطل جہاں بھی ہو،اس سے خطرہ محسوس کرتا ہو۔یہ جو تصوف میں مسکنت اور گوشہ نشینی آ گئی اور لوگوں نے چلے کاٹنے شروع کردیے۔اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ یہ تصوف کی ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جب توجہ کامل نہ ملی تو ان لوگو ں نے مجاہدے کرکے کچھ نہ کچھ حاصل کرنے کی کوشش کی اس سے منازل ومقامات نہیں ملتے، مشاہدات ہو جاتے ہیں۔ان لوگوں کو کسی نے ایک لطیفہ قلب سکھایا، انہوں نے چلہ کشی کرکے،بھوکے رہ کر،راتوں کوجاگ کر، گوشہ نشینی اختیار کر کے،انہیں کچھ انوارات نظر آناشروع ہوگے تو انہوں نے سمجھا کہ بات بن گئی۔اسی کوولایت کی انتہاسمجھے رکھا۔آپ بے شمار تصانیف میں دیکھیں گے (حالانکہ انہیں خود پتہ نہیں ہوتا)کہ فلاں بزرگ نے فلاں جگہ سے فلاں بزرگ سے فنا بقا ء کرلیا اورسلوک کی انتہا کو پہنچ گیا۔حالانکہ فنا بقاء توسلوک کا ابجد ہے، الف،ب،جیم ہے۔یہاں سے بات شروع ہوتی ہے۔فنا فی اللہ اور بقا با اللہ کی کیفیت سے جوگزرتا ہے۔ وہ سلوک کے دروازے پرقدم رکھتا ہے۔سلوک نہ ختم ہونے والی چیزہے۔ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّیْ (بنی اسرائیل:85)انسانی روح عالم امر سے ہے۔ اگر کوئی اتنی ترقی کرتا ہے کہ وہ ترقی کرتا کرتا عالم امرمیں پہنچ جاتا ہے تو گھر پہنچا۔ یعنی بڑی محنت کی تو اپنے گھر پہنچا،اپنے مقام پرپہنچا۔اب اس سے آگے چلے گا توترقی ہو گی۔آگے اس کی انتہا کیا ہے؟ کوئی ایسی جگہ نہیں کہ وہاں آپ پہنچ گے، اس سے آگے کوئی جگہ نہیں، آگے اللہ کریم بیٹھے ہیں۔نہیں!یہ ترقی ہوتی رہتی ہے۔زندگی میں، موت کے بعد برزخ میں،میدان حشر میں، جنت میں بھی مسلسل ترقی ہوتی رہے گی اور یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔اس لیے کہ سلوک کی کوئی انتہانہیں ہے۔

مسلمان ایک مرد مجاہد ہے۔ جہاں سے گزرے فضا کو چیرتا ہواگزرے۔پتہ چلے کوئی ہستی ہے،کوئی وجود ہے،جس کے ساتھ اللہ کی مدد ہے اللہ اس کے ساتھ ہے۔آپ صحابہ کرامؓ کی زندگیاں پڑھیں۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین سے کون پارسا ہوگا؟ساری دنیا کے اولیاء، اقطاب اور غوث جمع کرلو،انؓکی جوتیوں پرنچھاورہوسکتے ہیں۔لباس پرانے تھے،تلواروں پردوپٹیاں رکھ کراوپرکپڑاباندھ لیتے تھے۔جوتوں کوگرہیں لگا لیتے تھے۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جیسے عظیم انسان کے لباس میں تیرہ تیرہ پیوند لگے ہوتے تھے لیکن جہاں جاتے تھے ہرچیز لرزاں براندام ہوجاتی تھی۔قیصرکے پاس صحابہ کرامؓ میں سے جوسفیرپہنچاتو قیصر نے اسے دیکھ کر حیران ہو کر کہاکہ تمہاری تلوار پرتودولکڑیا ں رکھ کر اوپر کپڑے سے گانٹھ لگی ہوئی ہے۔تم کیا لڑو گے؟ انہوں نے فرمایا! قیصرمیانیں نہیں لڑا کرتیں، تلواریں لڑاکرتی ہیں۔تم میان کی بات کر رہے ہو۔تم نے میری تلوار کی کاٹ دیکھی نہیں۔ایک ایک شخص بڑے بڑے حکمرانوں کو لرزاں براندام کردیتا تھا۔ان کی وجاہت، ان کے چہرے کی عظمت،انوارات و تجلیات سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوہِہِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ(الفتح 29:) ان کے چہروں پر تجلیاتِ باری رقصاں ہوتی تھیں۔ مخاطب پر رعب طاری ہوجاتا تھا۔وہ بندے کااپنا نہیں ہوتا تھا، تجلیات باری کاامین ہوتا تھا۔

اسی طرح جہاد اور فساد میں بڑا فاصلہ ہے۔ہرجھگڑاجہاد نہیں ہے،ہرلڑائی جہاد نہیں ہے،دہشت گردی جہاد نہیں ہے، یہ فساد ہے۔ جہاد وہ ہے۔ جہاں حضور ﷺ کے حکم کے مطابق، باطل کے مقابلے میں جم کرکام کیا جائے۔ بات کرنا زبانی جہاد ہے۔ لکھنا قلمی جہاد ہے۔ لڑنا عملی جہاد ہے۔جہاں غلط ہورہاہووہاں حق کی حمایت میں جم جانا، یہ جہاد ہے۔خواہ مخواہ لوگوں کوقتل کرتے پھرنا اور دہشت پھیلانا۔یہ جہاد نہیں ہے۔ اہل ِمغرب نے جہاد کے اصل تعین،اس کے مفہوم کو مسخ کردیا ہے۔جہاداورفسادکوخلط ملط کردیاہے۔فساد الگ چیز ہے۔اسلام فساد کے خلاف ہے۔اسلام، فساد کو سرے سے برداشت ہی نہیں کرتا۔اسلام امن کا داعی ہے اور جہاد فساد کے خلاف قیام امن کی سعی کانام ہے۔جان دینی پڑے،زبان سے کام ہوجائے،ہاتھ سے کام ہوجائے۔اس کے لیے الگ الگ مواقعے اور الگ الگ صورتحال ہے۔ لیکن ہر مسلمان مجاہد ہے۔ایمان کاتقاضا یہ ہے کہ اس کی زندگی جہاد ہو۔ نبی کریم ﷺ جب میدان کارزار سے واپس تشریف لائے تو فرمایا رجعنا من الجہاد الاصغر الی الجہادالاکبر اوکماقال رسول اللہ ﷺ کہ ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف آگئے ہیں۔ میدان کارزار میں دادشجاعت دینا۔ایک جذبہ ہوتا ہے، ایک جوش ہوتا ہے، ایک کام ہوتا ہے، ہربندہ کرجاتا ہے۔لیکن ساری زندگی حق پرقائم رہنا اور باطل سے ٹکراتے رہنا حضور ﷺ نے فرمایا یہ جہاد اکبر ہے۔یہ بڑا جہاد ہے کہ آپ کا اٹھنا بیٹھنا،سونا جاگنا،بولنا چالنا،لین دین سارا حق کے مطابق ہو اور ہرہرعمل میں باطل کا ابطال ہورہاہو۔تب یہ پوری زندگی جہاد اکبر ہے۔مومن کی زندگی، مجاہد کی زندگی ہے۔ مومن کی حیات، مجاہد کی حیات ہے اور مومن کی موت، مجاہد کی شہادت ہے۔

اولیاء اللہ کی حقیقی کرامت یہ تھی کہ انہوں نے وہاں ڈیرے لگائے،جہاں باطل کی قوت زور پر تھی، وہاں باطل کوشکست دی۔ ایک فرد پہنچا تو ایک سے کروڑوں نہیں تو لاکھوں ہو گئے۔ لوگوں کوحق پرچلنا سکھایا۔اللہ کی مخلوق کواللہ کے غضب سے بچایا اورا نہیں جہنم میں گرنے سے بچاکر صراط مستقیم پر گامزن کیا۔جن اولیاء اللہ کو ہم عظیم سمجھتے ہیں ان کی سوانح ُپڑھیں۔وہ لاکھوں لوگوں کوجہنم سے بچانے کاسبب بنے۔جب باطل قوتیں زورں پرتھیں۔ حکومتیں بھی باطل کی طرف تھیں۔دنیاوی طاقتیں بھی اسی طرف تھیں تواس میدان میں ان سے افراد کو چھین کر،برائی سے چھین کر، شیطان سے چھین کر،انسانوں میں سے جو شیطان تھے ان کے شکنجے سے چھین کر، اللہ کریم کی بارگاہ میں لے آنا، یہ بڑی کرامت ہے۔ اللہ کریم توفیق ارزاں فرمائے۔ ہرفرد ایک قوت ہے کہ اس کے ساتھ اللہ کریم ہے، ہرفردباطل کے لیے خطرہ ہے تب وہ حقیقی مسلمان ہے۔ تب وہ صوفی بھی ہے۔ مجاہدبھی ہے۔ مسلمان بھی ہے۔اگر باطل اس سے خطرہ محسوس کرتا ہے تو پھر وہ حق پرہے۔ باطل کے لیے قابل برداشت ہے تو پھر وہ نہ اُدھر کاہے اور نہ اِدھر کاہے۔سادہ سی بات ہے۔ اسی میں ساری ولائیت بھی ہے اور سارے درجات بھی ہیں۔انجام اللہ کریم کے دست قدرت میں ہے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لوگوں نے بڑے مراقبات طے کیے ہوں۔لیکن کئی ایسے بھی ہیں جو زندگی میں سب کچھ ہار کر مرتے وقت ایمان بھی ہار گئے۔ایسے لوگ بھی ہیں جو زندگی بھر تو کچھ نہ کرسکے لیکن موت سے پہلے کوئی ایسا عمل کیا جو اللہ کریم کو اتنا پسند آگیاکہ بڑے بڑے مجاہدے کرنے والوں سے آگے نکل گئے۔رحمت الہٰی سے بات بنتی ہے اور بات وہی بنے گی کہ جو اللہ کریم کے غضب سے بچ گیاوہ ساری کامیابیاں پاگیا۔اللہ کریم ہمیں صحیح شعوربھی اورتوفیق عمل بھی عطافرمائے۔اٰمین۔

0 comments

Comments

Rated 0 out of 5 stars.
No ratings yet

Add a rating
bottom of page