ماہِ رمضان کا آخری عشرہ: اُمور و شعور
بقلم:
ڈاکٹر فیض احمد بھٹی
رمضان المبارک کی چند اہم خوبیوں کے حوالے سے قبل ازیں ہم ایک کالم لکھ چکے ہیں۔ آج کا کالم اپنے دامن میں قرآن مجید، لیلۃ القدر، اعتکاف اور آخری عشرے کے حوالے سے کچھ اہم پہلوٶں کو سموۓ ہوۓ ہے۔
1:(قرآنِ مجید) قرآن بذریعہ روح الامین حضرت محمدﷺ کے قلبِ اَطہر پہ نازل ہونے والا اللہ کا آخری کلام ہے۔ خُدا کا یہ آفاقی پیغام صداقت کے اُس آخری درجے پہ فائز ہے کہ اِس میں ادنٰی ترین تردد کی بھی گنجائش نہیں۔ اِس کے الفاظ، معانی، مفاہیم اور احکام و مسائل کو اَبدی اِعجاز حاصل ہے۔ اس کتاب نے نہ صرف سابقہ تمام اِلہامی کُتب کی بنیادی أخلاقیات کو اپنے اندر سمیٹا ہوا ہے بلکہ عقائد، عبادات، معاملات، اور اخلاقیات کی مزید توضیحات کے ساتھ اپنی عظمت کو دوام بخشا ہے۔ انسانی اِحاطۂ شعور میں آنے والے کسی عُنوان، بیان، رہنمائی اور بھلائی کو اس نے تشنہ نہیں چھوڑا۔ یہ تو زَرّیں علوم کا ایسا سر چشمہ ہے کہ جس سے ہر کوئی سیراب ہو کر شاد ہوتا جاتا ہے۔ تیس پاروں پہ مشتمل اس عظیم المرتبت کتاب نے گویا ایک جہان کو اپنے اندر آباد کر رکھا ہے۔ ایک ایسا جہان جس میں داخل ہوتے ہی عقول ورطۂ حیرت میں گُم ہو کر بے ساختہ پُکار اٹھتی ہیں: (ما ھذا قول البشر) یعنی یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہے! چنانچہ اللہ کی طرف سے بذریعہ رسالت مآبﷺ تمام جن و اِنس کے لیے در حقیقت یہ ایک کمپلیٹ گائیڈ بک ہے۔ یہ ہماری مکمل رہنمائی کرتی ہے کہ ہم اپنے شب و روز کیسے گزاریں، اپنی حیات کو کِن خُطوط پہ اُستوار کریں، دنیا اور عقبیٰ کے حوالے سے ہمارا مطمعِ نظر کیا ہونا چاہیے، ہم اپنے مذہبی، سیاسی، سماجی، معاشی، اخلاقی، طبی حتی کہ سائنسی امور تک کو کس ڈھب سے سر انجام دیں وغیرہ وغیرہ؟! الغرض یہ کتاب مذکورہ تمام مسائل میں ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ بلکہ دارین میں ہماری عزت یا خواری کا سارا سامان اس کتابِ ھُدی پہ عمل کرنے یا نہ کرنے پر منحصر ہے۔ لہذا سال بھر عموماً اور رمضان شریف میں خصوصا جبکہ رمضان کے آخری عشرے میں خاص الخاص طور پہ قرآن مجید کی بغور تلاوت کرنی چاہیے۔ نیز اس کی تعلیم و تفہیم پر توجہ دینی چاہیے، اور اسکی تمام تعلیمات پر آئندہ زندگی میں عمل پیرا ہونے کا عزم بالجزم کرنا چاہیے۔ اسی بات کی طرف ترغیب دیتے ہوئے رسول کریمﷺ نے فرمایا تھا: (خیرکم من تعلم القرآن و علمہ) تم میں سے بہترین وہ ہے جس نے قرآن مجید سیکھا اور سکھایا (بخاری شریف)۔
2:(لیلۃ القدر) یہ رات بنفسہ کچھ ایسے خواص رکھتی ہے جو اِسے باقی تمام راتوں کے مقابلے میں انتہائی رفعت و بلندی سے ہمکنار کیے ہوے ہیں: پہلی خاصیت اس کی یہ ہے کہ نزولِ قرآن کے لیے اللہ تعالی نے اس رات کا انتخاب فرمایا۔ دوسری یہ کہ یہ رات ماہِ صیام کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں پِنہاں ہے۔ جس میں جبریلِ امین علیہ السلام سمیت دیگر مقرب فرشتوں کا بمع رحمتوں اور برکتوں کے زمیں پہ ایک خاص نزول ہوتا ہے- تیسری یہ کہ قادرِ مطلق کی طرف سے کئی اہم ترین فیصلوں کیلیے بھی یہ رات مختص ہے۔ چوتھی یہ کہ اس میں کی گئی عبادت و ریاضت دیگر ہزار مہینوں سے برتر اور ارفع شمار ہوتی ہے۔ (لیلۃ القدر خیر من ألف شھر). پانچویں خاصیت یہ ہے کہ یہ پوری رات سرا سر سلامتی، برکت اور رحمت سے لبریز ہوتی ہے۔ (سلام ھی حتٰی مطلع الفجر)۔ سو آخری عشرے کی طاق راتوں میں اس عظیم الشان اور رفیع المقام رات کو تلاش کرنا چاہیے۔ اور رات بھر خلوصِ قلب سے عبادتِ الہی میں محو رہنا چاھیے۔
3:(اعتکاف) قارئین: اِعتکاف دراصل صیام و قیام یعنی ماہِ رمضان کا مُنتہاۓ کمال ہے۔ کیونکہ اعتکاف میں بیٹھے انسان کی جہاں نفسانی آلودگی کی تطہیر ہو جاتی ہے وہاں اس کے ذریعیے اللہ اور بندے کے مابین دُوریاں قُربتوں میں اور قربتیں مزید قربتوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ چند دنوں کی یہ گوشہ نشینی گناہوں کو مٹانے کیلیے ایک تریاق کی حیثیت رکھتی ہے۔ مکروہاتِ دنیا سے دور ہو کر فرصت کے اِن قیمتی لمحات میں بندہ سوچتا ہے کہ میری تخلیق کا مقصد کیا ہے، میرا خدا مجھ سے کیا چاہتا ہے، میں آج تک اس کے احکامات پہ کتنا عمل کر پایا، میری زندگی پہ رسالت ماٰبﷺ کی سیرت و تعلیمات کا کتنا اثر ہوا، کیا اسلامی اقدار کے حوالے سے میری ظاہری زندگی میری باطنی زندگی سے مطابقت رکھتی ہے، میرے قول و فعل میں کہیں تضاد تو نہیں، اپنے حالیہ نامۂ اعمال کے ساتھ کیا میں روزِ محشر اپنے خالق کا سامنا کر پاؤں گا وغیرہ وغیرہ؟!۔ سو اعتکاف کی تنہائی میں پاکیزہ سوچ بیچار سے معتکف کی زندگی اللہ و رسولﷺ کی محبت و اطاعت میں ڈھل جاتی ہے۔ اگر فرصت ملے تو رمضان کے آخری عشرے میں مکمل دس دن اعتکاف کیا جائے یا پھر جتنے دن کی بھی توفیق ملے اعتکاف کر لینا چاہیے۔
4:(آخری عشرہ) ویسے تو رمضان شریف کے تینوں عشرے اپنی جگہ پہ بہت اہمیت و فضیلت کے حامل ہیں، مگر جتنی اہمیت آخری عشرے کو حاصل ہے دیگر اس کے عُشرِ عشیر بھی نہیں۔ کیونکہ نزولِ قرآن، لیلۃ القدر اور لیلۃ القدر میں نزولِ جبریل و ملٰائکہ اور دیگر خواص و اوصاف کے لحاظ سے آخری عشرے کو پہلے دو عشروں پہ کئی گنا زیادہ برتری اور فوقیت حاصل ہے۔ متذکرہ بالا اہمیت و فضیلت کے پیشِ نگاہ آخری عشرے میں عبادت اور نیک اعمال کا خاص اہتمام کرنا چاہیے۔ روایتی سوچ کے تحت محض تلاوت پہ ہی اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ قرآن مجید کو باتفسیر یا کم از کم باترجمہ ضرور پڑھنا چاہیے تاکہ اسکے احکامات و تعليمات اور رموز و غموز کا حقیقی ادراک حاصل ہوسکے۔ اور نتیجتاً بندہ صراطِ مستقیم پہ گامزن ہو جاۓ۔ اس عشرے میں بھرپور انداز میں خدمتِ خلق کرنی چاہیے۔ حاجت مندوں کی دل کھول کر امداد کرنی چاہیے۔ ہر نیک عمل کو بجا لانے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ اِس کے ساتھ ساتھ اپنے ماضی کا تجزیہ کر کے اور اپنے حال پہ نظر ڈال کر دُنیاوی اور اُخروی مستقبل کی اعلىٰ صورت گری کرنی چاہیے۔ تاکہ بندہ اِس دنیا میں بھی اور اُس دنیا میں بھی فوز و فلاح سے ہمکنار ہوسکے۔ چونکہ یہ آخری عشرہ خاص طور پہ جہنم سے آزادی پانے کا عشرہ ہے۔ اس لیے جہاں سچے دل سے اللہ کے حضور اپنے گناہوں کی معافی کا طلبگار ہوا جاۓ، وہاں تا دمِ مرگ حصولِ جنت اور دوزخ سے نجات کو اپنا مقصدِ وحید بنا لیا جاۓ۔ کیونکہ حقیقی کامیابی یہی ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے۔ (فمن زحزح عن النار و أدخل الجنة فقد فاز۔۔۔۔۔) جس کو دوزخ سے بچا لیا گیا، اور جنت میں داخل کر دیا گیا اصلی کامیاب تو وہی ھے۔ اور آخری عشرے میں بالخصوص طاق راتوں میں یہ دعا بکثرت پڑھنی چاہیے:
{اَللَّهُمَّ اِنَّكَ عَفُوٌّ، تُحِبُّ الْعَفْوَ، فَاعْفُ عَنِّي} (سنن الترمذی) ترجمہ: اے اللہ آپ معاف کرنے والے ہیں اور معافی کو پسند کرتے ہیں، مجھے بھی معاف کر دیں!
ความคิดเห็น