top of page
Writer's pictureJhelum News

مادری زبان پنجابی: تعارف، تاریخ، اہمیت۔۔۔ قسط نمبر1۔۔۔تحریرڈاکٹر فیض احمد بھٹ

مادری زبان پنجابی: تعارف، تاریخ، اہمیت

قسط نمبر1

تحریر

ڈاکٹر فیض احمد بھٹی


قارئین! حالیہ سروے کی رُو سے پاکستان میں پنجابی سب سے زیادہ بولی جانے والی مادری زبان قرار پائی ہے۔ ادارہ شماریات کی طرف سے پاکستان میں بولی جانے والی مادری زبانوں پر جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 8 کروڑ 89 لاکھ افراد کی مادری زبان پنجابی ہے۔ چار کروڑ 36 لاکھ آبادی کی مادری زبان پشتو ہے. 3 کروڑ 44 لاکھ آبادی کی مادری زبان سندھی ہے۔ 2 کروڑ 88 لاکھ افراد کی مادری زبان سرائیکی اور 2 کروڑ 22 لاکھ سے زائد آبادی کی مادری زبان اردو ہے. جبکہ 81 لاکھ 17 ہزار آبادی کی مادری زبان بلوچی ہے.

قارئین! اگر ہم سرائیکی عدد کو بھی پنجابی میں ضم کریں تو پاکستان میں پنجابی بولنے والوں کی تعداد ساڑھے گیارہ کروڑ سے بھی تجاوز کر جاتی ہے۔ کیونکہ سرائیکی بنیادی طور پہ پنجابی کا ہی ایک لہجہ ہے۔

پنجابی زبان کے لہجوں کی اگر بات کی جائے تو 2017ء کی مردم شماری کے مطابق پنجابی زبان کا ماجھی لہجہ 38 فیصد، سرائیکی لہجہ، 12 فیصد اور ہندکو لہجہ، 2 فیصد ہے۔

پاکستان میں اکثریت کی مادری زبان پنجابی ہے۔ بھارتی پنجاب میں 57 فیصد سکھوں اور 40 فیصد ہندوؤں کی مادری زبان پنجابی ہے۔ باقی تین فیصد مسلمان اور عیسائی ہیں۔ 2023ء کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں پنجابیوں کی کل تعداد 15 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اور یہ دنیا کی 11ویں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔

پنجابی زبان کی تاریخ شمالی ہند کی دیگر زبانوں سے ملتی ہے، جو تقریباً تین ہزار سال پرانی ہے۔ بنیاد سنسکرت ہے، جو وقت کے ساتھ مختلف شکلیں بدلتی رہی۔ لہذا ہندی سے پنجابی کا بڑا گہرا رشتہ ہے۔ پنجاب کے ہندو ہمیشہ دیوناگری میں ہی پنجابی لکھتے رہے، جو ان کا مذہبی رسم الخط تھا۔ پنجابی زبان کی ارتقاء کے حوالے سے مؤرخین نے لکھا ہے کہ پنجابی زبان کا اختراع اپبھرمش پراکرت زبان سے ہوا ہے۔ اس زبان میں ادب و شاعری کا آغاز بابا فرید الدین (1175ء پیدائش - 1265ء وفات) سے ہوتا ہے۔ بعد ازاں سکھ مت کے بانی بابا گورو نانک کا نام آتا ہے۔ سکھوں کے پانچویں گورو ارجن دیو نے "گورو گرنتھ صاحب" کی تالیف کی تھی۔ یہ کتاب گورمکھی رسم الخط میں لکھی گئی اور اس میں پنجابی کا کافی استعمال کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں بابا فرید کی پنجابی شاعری سے 112 اشلوک بھی شامل کیے گئے ہیں۔

پندرھویں سے انیسویں صدیوں کے درمیان مسلمان صوفی بزرگوں نے پنجابی زبان میں بے مثال منظوم تحریریں رقم کیں۔ سب سے مقبول بزرگوں میں بابا بلھے شاہ شامل ہیں۔ ان کی شاعری کافیوں پر مشتمل ہے۔ قصہ خوانی بھی پنجابی ادب کی ایک مقبول صنف ہے۔ سب سے مشہور قصہ ہیر اور رانجھے کی محبت کا ہے، جو وارث شاہ کے قلم سے رقم ہو کر امر ہو چکا ہے۔ دیگر صوفی شعراء میں حافظ برخوردار، شاہ حسین، سلطان باہو، میاں محمد بخش اور خواجہ غلام فرید شامل ہیں۔ جبکہ واضح طور پر لفظ "پنجابی" سب سے پہلے (11ویں صدی ہجری) میں حافظ برخوردار نے اپنی کتابوں میں استعمال کیا تھا۔

تقسیم ہند کا سب سے بُرا اثر پنجابی زبان پر پڑا۔ ایک طرف ہندو پنجابی جو صدیوں سے پنجابی بولتے آ رہے تھے، اب ہندی کو اپنی مادری زبان کہلوانے لگے۔ دوسری طرف پاکستان میں پنجابی کو کسی قسم کی سرکاری حیثیت نہیں دی گئی، تاہم اختیاری مضمون کے طور پر شامل نصاب ہے۔ جبکہ ہندوستان میں پنجابی کو سرکاری حیثیت دینے کی راہ میں بہت رکاوٹیں حائل کی گئیں۔ تاہم اب ریاست پنجاب (بھارت) میں پنجابی سرکاری اور دفتری زبان ہے۔

مشہور پنجابی شعراء و مصنفین کے نام درج ذیل ہیں: بابا فرید الدین پاکپتن، دمودر داس، بابا گرو نانک، گرو انگد دیو، گرو امر داس، گرو رام داس، شاہ حسین، گرو ارجن دیو، بھائی گرداس، حافظ برخوردار، حضرت سلطان باہو، گورو گوبند سنگھ، صالح محمد صفوری، بابا بلھے شاہ قصوری، پیر وارث شاہ، حافظ محمد لکھوی، خواجہ غلام فرید، بابو رجب علی، میاں محمد بخش کھڑی شریف، مولوی غلام رسول، مولوی عبد الستار، قادر یار، حسرت مٹھڑوی، پیلو شاعر، شاہ محمد، موہن سنگھ، امرتا پریتم، ہاشم، شریف کنجاہی، دائم اقبال دائم، میر تنہا یوسفی، انور مسعود، افضل احسان رندھالوی، حیدرعلی آتش، ہربانس بھالا، شائستہ نزہت، بھائی ویر سنگھ، جسونت سنگھ راہی، فیض احمد فیض، درشن سنگھ، ڈاکٹر ہربجن سنگھ، شیو کمار بٹالوی، سرجیت پاتر، استاد دامن، منیر نیازی، شہزاد اسلم، چمن لال چمن،، خشونت کنوال، شمشیر سنگھ سدھو، احمد راہی،

مظہر ترمذی، حکیم علی محمد صمصام، اعظم چشتی، محمد علی ظہوری قصوری، بابا قصور مند، سید میر گجراتی، ڈاکٹر فقیر محمد فقیر اور شاکر شجاع آبادی وغیرہ۔

یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ بابا فرید الدین (1175ء پیدائش - 1265ء وفات) پنجابی زبان کے بانی اور بنیاد رکھنے والے شاعر و دانشور ہیں۔ بابا جی کا اصل نام مسعود اور لقب فرید الدین تھا۔ آپ کی جائے پیدائش ملتان جبکہ جائے مسکن و مدفن پاکپتن ہے۔

یاد رہے: حضرت بابا فرید الدین، حافظ برخوردار، پیر وارث شاہ، بابا بلھے شاہ، حضرت سلطان باہو اور میاں محمد بخش کی طرح حافظ محمد لکھوی نے بھی پنجابی زبان کو اپنے قلم کا محور بنایا۔ پنجابی شاعری میں مشہور زمانہ کتاب "احوال الآخرت" اور "زینت الاسلام" ان کی ایسی لاجواب تصانیف تھیں، جو پنجاب کے ہر گھر میں سالہا سال پڑھی گئیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے پنجابی شاعری میں پورے قرآن مجید کا ترجمہ اور مفصل تفسیر لکھ کر پنجابی زبان کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ اور یہ اعزاز ان کے علاوہ آج تک کسی بھی دوسرے پنجابی شاعر کو حاصل نہیں ہوا۔ ان کی مذکورہ تفسیر" تفسیر محمدی" کے نام سے 7ضخیم جلدوں میں ان کے پوتے مولانا معین الدین لکھوی مرحوم (سابقہ ایم این اے آف اوکاڑہ) نے شائع کی۔ تفسیر محمدی پر ’’حافظ محمد بن بارک اللہ کا تفسیری منہج‘‘ کے عنوان سے مؤلف کے پڑپوتے اور مشہور اسکالر ڈاکٹر حماد لکھوی کے برادر پروفیسر محمد حمود لکھوی نے ایک تحقیقی مقالہ لکھ کر 2004ء میں پنجاب یونیورسٹی کے "شعبہ علوم اسلامیہ" سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

0 comments

Kommentare

Mit 0 von 5 Sternen bewertet.
Noch keine Ratings

Rating hinzufügen
bottom of page