top of page
Writer's pictureIDREES CHAUDHARY

قرآن کے تناظر میں یہود کے قبائح و فضائح بقلم: ڈاکٹر فیض احمد بھٹی


قرآن کے تناظر میں یہود کے قبائح و فضائح

بقلم: ڈاکٹر فیض احمد بھٹی

جیسے حسد اور رشک ضدین ہیں۔ ایک کا اثبات دوسرے کی نفی قرار پاۓ گا۔ ایسے ہی بُغض اور حُب بھی آپس میں نقیض ہیں۔ ایک کا وجود دوسرے کے عدم کا ثبوت ہوگا۔ آگ اور پانی کی طرح یہ اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ رشک اور حُب کی جبلتوں میں اعلی ظرفی، خوش اخلاقی، نیک نیتی اور کمالِ نعمت کی اقدار و احساسات کار فرما ہوتے ہیں۔ جبکہ حسد اور بغض کی جبلتوں میں تنگ نظری، پست ذہنی، بد نیتی اور زوالِ نعمت کی خواہشات کی یلغار ہوتی ہے۔ یہ عوارضِ قبیحہ کسی بھی انسان کی نہ صرف شرعی زندگی کو تہ و بالا کرتے ہیں بلکہ اسکی نفسیاتی زنگی کو بھی مہلک حد تک دگر گوں کر دیتے ہیں۔ پس حسد کا مریض دنیاوی سکھ کی نامرادی کے ساتھ ساتھ آخرت کے سکون سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ حسد کی آگ میں جل بُھن کر راکھ ہوجاتا ہے۔ قارئین! اصل میں حسد، بغض اور اس طرح کی دیگر قبائح اپنی ظاہری اور باطنی معنویت میں یہود کا وتیرہ ہیں۔ جنکی کی ابتدا آدم علیہ السلام کے آگے سجدے سے انکار کی صورت میں ازلی لعین نے کی۔ اور انہیں انتہا تک اس کے پیروکاروں (یہودیوں) نے پہنچایا۔ پھر یہ بد نصیب ان غیر شرعی عوارض کا اس طرح شکار ہوۓ کہ یہ ان کا خاصہ بن کر رہ گئیں۔ مقام تاسف یہ ہے کہ صدیاں بیت گئیں مگر ان امراض کا تسلسل آج تک برقرار ہے بلکہ ہر گزرتے دن میں یہ بڑھوتری کی طرف مائل ہیں۔ قارئین! یہ افعالِ شنیعہ جس قدر مہلک ہیں اسلام نے اتنی ہی شدت اور تکرار سے ان کی مذمت کی ہے۔ ایک مقام پہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: (مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ اس سے حسد کرتا ہے نہ اس سے بغض رکھتا ہے)۔ دوسری جگہ آپﷺ گویا ہوۓ: (کسی مسلمان کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہوسکتے)۔ بنی نوع انسان کی پوری تاریخ میں یہود کی سی اسفل و ارذل قوم اس کرۂ ارض پر کبھی نہیں پائی گئی۔ ان فتنہ خیز لوگوں نے آج تک کسی کو سکھ سے رہنے دیا نہ کسی کے عزت و وقار کو برداشت کیا۔ یہاں تک کہ انبیا و رسل علیھم السلام جیسی عظیم ہستیاں بھی ان کے شرور سے محفوظ نہ رہیں۔ اسلام نے جہاں ان کی بدترین خصلتوں کا ذکر کیا ہے وہاں امت مسلمہ کو ان عادات و حرکات سے بچنے کی بھی ازحد تلقین کی ہے۔ ذیل میں ہم حسد و بغض سمیت یہودیوں کی چند مزید قبیح عادات کا احاطہ کرنے کی سعی کریں گے تاکہ مسلمان ان قبائح سے مامون و محفوظ رہ کر خدائی غضب سے بچ سکیں۔ 1_حسد و بغض: یہود کی بدترین عادت یہ ہے کہ وہ حسد و بغض سے لت پت ہیں۔ انکے دل بغض و عداوت سے بھرپور رہتے ہیں۔ اگر کوئی نعمتِ خداوندی سے سرفراز ہو تو انہیں بلاوجہ عداوت ہونے لگتی ہے۔ کسی نہ کسی طریقے سے اس نعمت کو ختم کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ کسی کے خلاف اپنے حسد و بغض کو پورا کرنے کے لیے انہیں جتنا مرضی خلاف شرع قدم اٹھانا پڑے یہ گریز نہیں کرتے۔ حتی کہ انہوں نے اپنی ان قبیح ترین عادات کا ہدف انبیاۓ کرام علیھم السلام کو بھی بنایا۔ بلکہ آخرالزماں نبی حضرت محمدﷺ کے ساتھ حسد و بغض کرنے میں یہود نے انتہا کر دی۔ جیسا کہ قرآن مجید نے اس بات کا تفصیلا ذکر کیا ہے۔ جبکہ رسالت مآبﷺ نے اپنی امت کو ان الفاظ میں تنبیہ فرمائی: (آگاہ رہو! حسد سے بچو؛ کیونکہ حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو)۔ 2_کذب بیانی اور کتمانِ حق: دروغ گوئی اور کتمانِ حق میں یہودیوں کا کوئی ثانی نہیں۔ اس طرح سنوار کر تکرار کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں کہ سننے والے فوری سچ سمجھنے لگتے ہیں۔ صرف اسی پہ اکتفا نہیں کرتے بلکہ اپنے جھوٹ کی تائید میں جھوٹے حلف تک اٹھا لیتے ہیں۔ اس باب میں یہ کسی امتیاز کے قائل نہیں۔ بھلے کوئی پیغمبر ہی ہو، یہ پھر بھی اسکے بارے جھوٹ بولتے ہیں۔ شریعتی حقائق اور انبیاء کی صفات خصوصا ہمارے نبیﷺ کی خوبیاں چھپاتے ہیں۔ قرآن مجید نے ان کی کذب بیانی اور حق کتمانی کا تذکرہ کرتے ہوۓ کہا: (جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو)۔ 3- خیانت اور غداری: خیانت اور غداری کے اعتبار سے یہود اس دنیا میں گُرو مانے جاتے ہیں۔ مذہب، قوم، ملک ہر کوئی ان کے نشانے پہ رہتا ہے۔ آج بھی غداری و خیانت میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ قرآن نے یہود کی مذکورہ عادات کو کئی مقامات پہ بیان کیا ہے۔ 4_ بہتان اور اتہام: بہتان یا اتہام لگاتے ہوۓ لوگوں کی عزت سے کھیلنا ان کا عام مشغلہ ہے۔ یہ فریضہ وہ ایسے انجام دیتے ہیں کہ کسی کو بھنک تک نہیں پڑنے دیتے۔ ان کے اتہامات سے تو سیدہ مریم علیہا السلام جیسی پاکیزہ ہستی بھی محفوظ نہ رہی۔ جیسا کہ قرآن میں ہے: {اور ان پر لعنت کی گئی ان کے کفر اور مریم پر بڑا بہتان لگانے کی وجہ سے}- (النساء:156)۔ بلکہ ان بخت جلوں نے انتہائی جسارت کرتے ہوۓ اللہ کی ذات پر بھی تہمت تراش دی۔ قرآن میں ہے کہ: {اور یہودیوں نے کہا: اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے۔ ان کے ہاتھ باندھے جائیں اور ان پر اس قول کی وجہ سے لعنت ہے بلکہ اللہ کے ہاتھ تو کشادہ ہیں جیسے چاہتا ہے وہ خرچ فرماتا ہے}۔ (المائدہ:64)۔ 5_فساد گری اور قتل و غارت: سماج میں فساد بپا کرنا اور لوگوں بلکہ انبیاء علیہم السلام تک کو بلاوجہ قتل کرنا کروانا بھی ان کا خاصہ ہے۔ ان کے آباؤ اجداد نے کتنے ہی انبیاء و صلحاء کا ناحق قتل کیا۔ اور آج بھی فلسطین میں نہتے انسانوں اور معصوم بچوں پر یہ لوگ قتل و غارت کا بازار گرم کیے ہوے ہیں۔ جیسا کہ قرآن میں ہے: {تو ہم نے ان پر لعنت کی۔۔۔ انبیاء کو ناحق شہید کرنے کی وجہ سے۔۔۔}- (النساء:155)۔ یاد رہے! جس عورت نے ہمارے نبیﷺ کو زہر دیا تھا وہ بھی یہودی النسل تھی۔ 6_ اکل حرام: حرام ذرائع سے مال کھانا خاص کر یتیموں کا مال ہڑپ کرنا یہودیوں کا شیوہ ہے۔ انہیں بس زر چاہیے بھلے وہ شرع کے اصولوں کو پامال کرنے سے ملے یا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی سے۔ قرآن اس قباحت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہتا ہے: {اور تم ان میں سے بہت سے لوگوں کو دیکھو گے کہ گناہ اور زیادتی اور حرام خوری کے کاموں میں دوڑے جاتے ہیں۔ بیشک یہ بہت ہی برے کام کرتے ہیں}۔ (المائدہ:62)۔ حتی کہ ان کے علماء اور مذہبی رہنما تک اس رذالت کا شکار تھے۔ قرآن میں آیا ہے: {اے ایمان والو! بیشک بہت سے پادری اور درویش باطل طریقے سے لوگوں کا مال کھا جاتے ہیں}۔ (التوبہ:34)۔ جبکہ اسلام اہل اسلام کو ہر طرح کے ماکولات و مشروبات کے حصول میں حلال اطوار و ذرائع کو روا رکھنے کا سخت حکم کرتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے: {اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ}- (النساء:29)۔ حرام چھوڑیں، رسالت مآبﷺ نے تو حصولِ زر کے لیے حد سے بڑھی ہوئی ہوس تک سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد ہے: (تباہ ہو گئے دینار و درہم کے غلام، عمدہ اور ریشمی چادروں کے غلام، اگر انہیں مال دیا جائے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں اور اگر نہ دیا جائے تو ناراض رہتے ہیں)- (بخاری) 7_منافقت: یہود کے کردار میں نفاق ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ ہر کارگزاری کی بنیاد نفاق پہ رکھ کر ہی یہ اپنے منفی عزائم کو عملی جامہ پہناتے ہیں۔ جب کہ قرآن مجید امت مسلمہ کو اس بھیانک عادت(منافقت) سے منع کرتے ہوۓ منافق کے انجام سے یوں آگاہ کرتا ہے۔ {بیشک منافق دوزخ کے سب سے نچلے طبقے میں ہونگے اور تو ہرگز ان کا کوئی مددگار نہ پائے گا}- (النساء:145)۔ قارئین ! یہ تھیں یہود کی وہ بدترین عادات جن کو قرآن نے بڑی صراحت و وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اللہ و رسولﷺ نے ان قبائح کی نہ صرف مذمت کی ہے؛ بلکہ مسلمانوں کو ان سے بچنے کی سخت تلقین بھی فرمائی ہے۔ آج اگر اسلامی معاشرے کا طائرانہ سا بھی جائزہ لیں تو بصد افسوس وہ تمام قباحتیں ہمیں اپنے اردگرد دکھائی دیں گی جن کی وجہ سے یہودی راندۂ درگاہ ہوۓ۔ مزید حیرت یہ ہے کہ فی زمانہ محراب و منبر سے وابستہ لوگ بھی ان رذالتوں اور ضلالتوں کی لپیٹ میں ہیں۔ والعیاذ باللہ! اب خطر ناک بات یہ ہے کہ جن محرمات اور قبائح کی نسبت یہود کی طرف تھی بدنصیبی سے آج وہی مسلمانوں کی شناخت بنتی جا رہی ہیں۔ صورت حال اتنی بگڑ چکی ہے: کہ ہیں تو ایک ہی ملک کے، ایک ہی مذہب کے، ایک ہی مکتبہ فکر کے، بلکہ ایک ہی خاندان کے؛ مگر حسد اور بغض کے طفیل اپنوں ہی کو ڈسنے کا چلن بنا رکھا ہے: کبھی حقوق غصب کر کے، کبھی سازشوں کے تانے بانے بُن کر، کبھی الزام در الزام کو اپنا لائحۂ عمل بنا کر، کبھی غیر قانونی ہتھکنڈے آزما کر، کبھی فطری اور جائز آسائشوں کی راہ میں پیچیدگیاں حائل کر کے۔ الغرض مذکورہ قبائح میں مبتلا ہونے کی وجہ سے امت مسلمہ کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔ انہی شرور کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ آقاﷺ نے کہا تھا: (تمہاری طرف پچھلی قوموں کی برائیاں حسد اور بغض سرایت کر آئیں گی جو مونڈ ڈالیں گی۔ میں نہیں کہتا کہ یہ بالوں کومونڈ دیں گی بلکہ یہ دین کو مونڈ دیں گی)- (ترمذی) روش اگر یہی رہی تو عین ممکن ہے کہ ہم درج ذیل حدیث کا مصداق بن جائیں، جس میں رسول اللہﷺ نے فرمایا: (تم اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں کے مطابق ایسے چلو گے جیسے تیار کیا ہوا تیر دوسرے تیر کے مطابق ہوتا ہے حتى كہ اگر وہ گوہ کی بِل ميں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی اس ميں داخل ہونے كى كوشش كروگے۔ صحابہ نے عرض كيا: یا رسول اللہ! ان سے مراد يہود و نصارىٰ ہيں؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ پھر اور کون؟)۔ اندریں حالات یہود کے بدترین انجام کو سامنے رکھتے ہوۓ ہمیں ان قباحتوں سے بہر صورت اجتناب کرنا چاہیے تاکہ ہم اللہ کی لعنت اور غضب سے بچ سکیں۔

0 comments

Comments

Rated 0 out of 5 stars.
No ratings yet

Add a rating
bottom of page