فوسلز کی تلاش میں دیکھی ہم نے گدھ🌈🔥💥☄️
مورخہ 16 دسمبر 2023 اوکاڑہ یونیورسٹی اور ویمن یونیورسٹی راولپنڈی کے طلباء نے پدھری کا دورہِ کیا جہاں سے شیر۔ گینڈے۔ زرافے اور گھوڑے کے دانت ملے اس دوران دیکھی ہم نے گدھ ہم نے سید علی شاہ صاحب سے رابطہ کیا اور کیمرہ کی آنکھ سے محفوظ تصویر دیکھائی تو انہوں نے بتایا یہ Eurasian Griffon ہے اب یہاں گدھ ناپید ہو چکی ہے
ناپید ہوتے گدھ ماحول کے لیے خطرہ ہیں
جانور کی لاش پر سب سے پہلے سفید پشت والے گدھ اترتے ہیں اور مردہ جسم کو کھولتے اور گوشت کھاتے ہیں۔ اسی طرح ان کی ایک اور قسم مصری گدھ جس کی چونچ پتلی ہوتی ہے، گوشت کے چھوٹے پارچے کھاتی ہے اور ایک دوسری قسم ہڈیوں کو اٹھا کر اوپر سے پھینکتی ہے اور اسے توڑ کر کھاتی ہے۔
گدھ کو عموماً ایک کریہہ صورت ، بے کارپرندہ اور کسی حدتک نحوست کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ مردہ گوشت کھاتا ہے اور موت سے اپنے لیے زندگی کشید کرتا ہے۔ مگرانسانوں کے اردگرد ماحول کے لیے اس کی اہمیت کے بارے میں کم ہی لوگ آگاہ ہیں۔
انتھراکس یا منہ اور کُھرسمیت دیگر بیماریوں سے مرنے والے اور دیگر مردہ جانوراگر کھلی جگہوں یا ندی نالوں میں پڑے رہیں تو ان کے گلنے سڑنے سے ماحول میں تعفن اور دیگر جراثیم پیدا ہوتے ہیں ۔ لیکن قدرت نے اس سے بچاؤ کا بندوبست گدھ کی صورت میں پیدا کیا ہے جو ان مردہ جانوروں کو کھاکر ماحول کی بالیدگی کا کام کرتے ہیں۔
دنیامیں گدھ کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں گدھ کی نو اقسام موجود ہیں لیکن ان میں سے دوخصوصاً سفید پشت والے گدھ کی نسل ناپید ہورہی ہے۔
ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیوڈبلیو ایف) کی پاکستان میں ڈائریکٹر بائیوڈائیورسٹی عظمیٰ خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دوسال پہلے کے اعدادو شمار کے مطابق سفید پشت والے گدھ کی تعداد 50تھی جب کہ کسی زمانے میں یہ تعداد ہزاروں میں تھی۔ان کے بقول یہ ان پرندوں کی افزائش کا موسم ہے جس میں بڑی تعداد میں یہ پرندے اکٹھا ہونا شروع ہوتے ہیں تو ان کا ادارہ اس حوالے سے تازہ سروے کرنے جارہا ہے۔
گدھ کی نسل کو نقصان ایسے مردہ جانوروں کے کھانے سے ہوا جن پر درد ختم کرنے والی دوا (ڈیکلو فینک)استعمال کی گئی ۔ ایسے جانور جب مر جاتے ہیں تو ان کا گوشت کھانے سے گدھ کے گردے ناکارہ ہوجاتے ہیں اور اس طرح ان کی بھی موت واقع ہو جاتی ہے۔
عظمیٰ خان کے مطابق 2002ء میں پورے جنوبی ایشیا میں اس دوا پر پابندی عائد کرنے کے لیے ایک معاہدہ ہوا تھاجس کے بعد سے جانوروں پر ڈیکلوفینک کے استعمال کو ممنوع قراردے دیا گیا ہے۔
منصور ڈاہری
دھرتی ڈویلوپمنٹ سوسائٹی کے عہدیدارمنصور ڈاہری کے مطابق ان کا ادارہ یو این ڈی پی کے تعاون سے گدھوں کی افزائش کے لیے کام کررہا ہے۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ننگر پارکر میں قائم ’گدھ ریسٹورنٹ‘ میں گدھوں کو ڈیکلو فینک سے پاک گوشت مہیا کیا جاتا ہے ۔ منصور ڈاہری نے بتایا کہ تھرپارکر میں گذشتہ سال کانڈی کے درخت جو کہ گدھ کے گھونسلے کے لیے موضوع ترین سمجھے جاتے ہیں، سے تقریباً 80نوزائیدہ گدھ کے بچے حاصل کیے گئے جن کی دیکھ بھال کی جارہی ہے۔
تاہم عظمیٰ خان کے بقول گدھ چونکہ لمبی اڑانیں بھرتے ہیں اور دن میں تقریباً ایک سو کلومیٹر تک بھی پرواز کرجاتے ہیں لہذا انھیں کسی ایک جگہ صاف گوشت فراہم کرنے سے اس بات کو یقینی بنانا مشکل ہے کہ یہ پرندہ کہیں اور سے آلودہ گوشت نہیں کھائے گا۔ لیکن ان کے مطابق یہ کوشش اس نسل کو بچانے میں بہرحال مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
منصور ڈاہری کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم اپنے طور پر گدھ کی نسل کو بچانے کی کوشش کررہی ہے لیکن اس کے لیے بڑے پیمانے پر لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا” اس علاقے میں لوگ مجھ سے مذاق کرتے ہیں کہ لوگوں کو کھانا دستیاب نہیں اور میں گدھ کو گوشت کھلاتا ہوں“۔ انھوں نے ہستے ہوئے بتایا ”لوگ مجھے منصور گدھ بھی کہنے لگے ہیں“۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ اس دلچسپ حقیقت سے ناواقف ہیں گدھ اڑتے ہوئے کہیں بھی چلے جائیں جب افزائش کا موسم آتا ہے تو یہ واپس وہیں پلٹتے ہیں جہاں انھوں نے پہلی بار انڈہ دیا ہوتا ہے۔ مردہ جانور کو کھانے کے مختلف مراحل میں مختلف نسل کے گدھ اپنا اپنا کردار اداکرتے ہیں۔
جانور کی لاش پر سب سے پہلے سفید پشت والے گدھ اترتے ہیں اور مردہ جسم کو کھولتے اور گوشت کھاتے ہیں۔ اسی طرح ان کی ایک اور قسم مصری گدھ جس کی چونچ پتلی ہوتی ہے، گوشت کے چھوٹے پارچے کھاتی ہے اور ایک دوسری قسم ہڈیوں کو فضا میں بلندی پر لے جا کر نیچے پھینکتی ہیں اور اسے توڑ کر کھاتی ہے۔
اوپر کچھ معلومات انٹر نیٹ سے حاصل کی گئیں
چوہدری عابد حسین دھمیال
Comments