علامہ ڈاکٹر محمد اقبا ل کا فلسفہ خودی ۔۔۔۔ حضرت امیر محمد اکرم اعوان مرَحمَتُہ اللّٰہ عَلِیہ
خودی کو کر بلند ا تنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟
حضرت امیر محمد اکرم اعوان مرَحمَتُہ اللّٰہ عَلِیہ
علامہ ڈاکٹر محمد اقبال مرحوم نے جب سے یہ شعر کہا ہے، ہمیشہ پہیلی ہی رہا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ خودی کیا ہے ؟ اکثریت خودی کو تکبر کے معنی میں لیتی ہے کہ اکٹر جاؤ، یہ خودی ہے، ایسی بات نہیں ہے۔ خودی کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے مقابلے میں کسی کے سامنے مت جھکو۔ ہمیشہ تمہاری گردن اللہ کی بارگاہ میں جھکے ۔غیر اللہ کے سامنے کبھی نہ جھکو۔ یہ خودی ہے۔ یہ خودی نہیں ہے کہ اللہ کے سامنے بھی نہ جھکو۔جب بندہ ہر طرف سے کٹ کر صرف اللہ کی اطاعت کرتا ہے اس کے نبی ﷺ کی پیروی کرتا ہے چونکہ (النساء : 80)جس نے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کی اسی نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔ اللہ کریم کی اطاعت کا ہمارے پاس ذریعہ کیا ہے؟ محمد الرسول اللہ ﷺ۔ جب بندہ یہاں پہنچتا ہے تو پھر اگلی بات آجاتی ہے۔
بادشاہ جب کسی شخص سے بہت زیادہ خوش ہوتا ہے تو اسے کہتا ہے مانگ تو کیامانگتا ہے یہ آخری درجہ ہوتاہے انعام کا۔ کسی کو زمین دے دی ، جاگیر دے دی، ریاست دے دی، اپنی مجلس میں بٹھا لیا ، اپنا نائب بنالیا، وزیر بنا دیا، کسی جگہ کا حکمران بنا دیا۔ یہ ساری باتیں پیچھے رہ جاتی ہیں جب بادشاہ بندے سے کہتا ہے مانگ کیا مانگتا ہے جو مانگو گے وہ دوں گا ۔جب بندہ یہاں پہنچتا ہے تو اللہ فرماتا ہے مانگ کیا چاہتا ہے؟ یہ نہیں ہے کہ اللہ کریم بندے سے درخواست کرتے ہیں کہ جناب آپ کو کیا چاہیے؟ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کریم فرماتے ہیں مانگ کیا چاہتا ہے؟ اس کا مفہوم یہ نہیں کہ اللہ کریم درخواست کرتے ہیں کہ حضور آپ کو کیا چاہیے؟ ایسا ہرگزنہیں ہے۔ لوگ یہ سمجھ کر حیران ہوتے ہیں۔ علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال مرحوم کے اس شعر کامفہوم وہی تھاانہوں نے اسے الفاظ میں،شعر کے مصرعے میں سجانے کے لیے جو الفاظ منتخب کیے گئے وہ یہ تھے اور بڑے خوبصور ت الفاظ ہیں خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے ؟مطلب تو یہ ہے کہ مانگ کیا مانگتا ہے ۔
ایک دن مدینہ منورہ میں حضور ﷺ کچھ صحابہ کرام ؓ کے ساتھ جلوہ افروز تھے کہ ایک شخص قریب سے گزرا جو کہ بہت ہی فقیر لگتا تھا، لباس بھی بہت پرانا پٹھا ہوا، بال بکھرے ہوئے، اپنی مستی میں جارہا تھا۔حضوراکرم ﷺ نے صحابہ کرام ؓ سے پوچھا کہ اس شخص کے بارے تمہاری کیا رائے ہے؟ عرب میں ایک محاورہ تھا کہ جو بندہ باعزت، خوشحال ،باروزگارہوتااسے ہر کوئی رشتہ دینے کو تیارہوتا اور جو بہت بد حال ہوتا اسے کوئی رشتہ بھی نہ دیتا۔ ایک محاواتی زبان انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ اسے تو کوئی رشتہ بھی نہ دے۔ یعنی یہ معاشرے کا بہت گیا گزرا بندہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا لیکن اگر اللہ کے بھروسے پراس کی زبان سے کچھ بھی نکل جائے اللہ اسے پوراکردیں گے۔ یعنی لوگ اسے رشتہ دیں، یانہ دیں۔ اس کا مرتبہ اللہ کریم کے ہاں یہ ہے کہ اللہ کے بھروسے پر زبان سے کچھ بھی نکال دے۔ اللہ کریم اسے پورا کردیں گے۔ایسا نہیں ہوتا کہ اللہ کے علم میں ہی نہ ہو کہ یہ کیا مانگے گا؟وہ مانگتے ہی وہی ہیں جو اللہ کریم پوراکرنا چاہتے ہیں ۔ا سی کو فنا فی اللہ کہتے ہیں۔ بندے کی زبان سے نکلتا ہی وہی ہے جو اللہ کو منظورہوتا ہے اور یہی وہ درجہ ہے کہ خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟ اب اس کو کھینچ تان کر پہیلی بنا دیا گیا۔اس شعر کامفہوم بڑا صاف اور بڑا آسان ہے اور ہر ایک کے لیے صلائے عام ہے یاران نقطہ گاہ کے لیے جو بھی پہنچنا چاہتا ہے پہنچے ۔یہ بندوں کے لیے ہے۔
کسی شاعر نے اس کے جواب میں یہاں تک کہہ دیا کہ
ہم نے اقبال کا کہا مانا
روز فاقوں مرتے رہے
جھکنے والوں نے رفعتیں پائیں
ہم خودی کو بلند کرتے رہے
یہاں شاعر علامہ اقبال کے شعر کے مفہوم کوسمجھ ہی نہیں سکا اور ایسا نہیں ہے کہ ادیب اور شاعر ہی سمجھ نہیں سکے میں تو سمجھتا ہوں کسی نے اسے نہیں سمجھا کیونکہ سارے حقائق جوعلامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں بند کر دیے ہیںیہ تصوف کے ہیں اور صوفی اس پائے کا کوئی ملا نہیں جو اس راز کو سمجھتا اگر کوئی تھا تو اس کا لوگوں سے اتنا تعلق نہیں تھاکہ انہیں سمجھاتا۔اللہ کے بندے بھی ضرورہوں گے ،کوئی زمانہ اللہ کے بندوں سے خالی نہیں رہتا۔ لیکن ایسے لوگ دنیا سے الگ تھلگ ہوجاتے ہیں۔ عام لوگوں سے انہیں کیا لینا ،دینا؟ لہٰذا اس طرح اس کا کوئی مفہوم کسی نے بیان نہیں کیا۔
خودی یہ ہے کہ جو شخص اللہ کریم کی ذات کے سامنے جھک جاتا ہے پھر وہ کسی اور کے سامنے نہیںجھکتا۔ اپنی آبرو بچاتا ہے۔ایک خاتون کا کسی سے نکاح ہو جاتاہے پھر اسکا ساراکچھ اس کے خاوند کے لیے ہے۔ وہ بندے بندے کے سامنے اپنی آبرو ریزی تو نہیں کرائے گی۔اگر ایک خاتون نکاح کی وجہ سے ایک بندے کے لیے زندگی محصور کردیتی ہے ۔تومکلف مخلوق، انسان خالق کو جب اللہ مانتا ہے تو پھر دوسروں کے در پر کیوں جھکتا ہے ؟اگر جھکتا ہے تو بے آبرو ہے پھر خودی کہاں رہی؟ اُدھر سے تو دھتکارا ہی جائے گاجیسے ایک خاتون اگر آوارہ ہوتی ہے تو خاوند تو اسے دھتکار دے گا۔
یہ بہت خوبصور ت بات ہے اصل صوفی جو اس پائے کے تھے کہ اسے سمجھتے وہ خلق سے بے نیاز ہو گئے انہوں نے کسی کو سمجھایا ہی نہیں او رجو خود سمجھ نہیں سکتے تھے انہوں نے دوسروں کو کیاسمجھا نا تھا؟ لوگ خودی لیتے ہیں جی کوئی اکڑ گیا ،متکبر ہو گیا تو خودی ہو گئی،یہ خودی نہیں ہے خودی یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کو مانا اللہ کریم کے سامنے سربسجود ہوا تو پھر وہ سر غیر اللہ کے سامنے نہ جھکے ۔کسی آرزو، کسی لالچ، کسی وجہ سے بھی نہیں پھر وہ سر صرف اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہوجائے ۔ جب بندہ یہاں پہنچتا ہے تو پھر اللہ پاک فرماتے ہیں کہ مانگ کیا مانگتے ہو؟یہ اللہ کریم کی طرف سے عطا کا آخری درجہ ہوتا ہے ۔رفعتیں ضرور ملتی ہیں لیکن اس وقت جب اللہ کریم کی ذات کے سامنے جھکا جائے ۔
المرشد پروگرام نمبر :207
انتہاٸ خوبصورت
A perfect explanation of the philosophy of " khudi".