*عقیدہ ختم نبوت اسلام کی اساس ہے*
جن علما نے سب سے پہلے قادیانیت کے کفر کا فتوی دیا وہ فخر سادات شیخ الکل فی الکل سید نذیرحسین محدث دہلوی اور ان کے شاگرد خاص مولوی محمد حسین بٹالوی تھے
یہ امر اب بلکل واضح ہو چکا ہے کہ مرزا غلام قادیانی کے پیروکار یہودیوں کے ایجنٹ، ہندوؤں کے گماشتے، مغربی طاقتوں کے آلہ کار، پاکستان اور عالم اسلام کے بدترین دشمن ہیں
*تحریر*
ڈاکٹرحافظ مسعود عبدالرشید اظہر
چیئرمین اسلامک کونسل پاکستان
قارئین! ختم نبوت اسلام کی اساس اور ایمانی اعتبار سے اہم ترین بنیادی عقیدہ ہے۔ دین اسلام کی پوری عمارت اس عقیدے پر کھڑی ہے۔ چونکہ یہ ایک حساس ترین مسئلہ ہے؛ لہذا اس میں اگر شکوک و شبہات کا ذرا سا بھی عمل دخل پیدا ہو جائے تو مسلمان نہ صرف اپنی متاع ایمان کھو بیٹھتا ہے؛ بلکہ امت محمدیہ سے بھی خارج ہو جاتا ہے۔ نبی مکرم رسول معظم رحمت عالم ﷺ کو صادق و مصدوق سمجھنا اور آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کو آخری تسلیم کرنا ایمان و ہدایت، ابدی کامیابی اور نجات حقیقی کی بنیاد ہے۔ قرآن مجید اور آحادیث نبویہ ﷺ کی متعدد نصوص اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ سیدنا محمد رسول ﷺ قیامت و فیما بعد تک اللہ کے آخری پیغمبر ہیں۔ آپ ﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کےلیے بند ہو چکا ہے۔ اور اس عقیدے سے انکار ایسا صریحاً کفر و ارتداد ہے، جس سے کوئی بھی تاویل نہیں بچا سکتی۔ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے لیکر آج تک تمام امت مسلمہ کا اس پر اجماع ہے۔ اس عقیدے کا دفاع پورے دین اسلام کا دفاع ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ کے آخری دور سے لے کر آج تک نبوت کے جھوٹے دعویدار اپنی منحوس صورتوں کے ساتھ دنیا کے مختلف خطوں میں نمودار ہوتے رہے ہیں۔ تاہم مجاہدین ختم نبوت نے ہر دور میں منکرین ختم نبوت کی بیخ کنی کی اور ان کے جھوٹے دلائل کا دندان شکن رد بھی کیا۔
بر صغیر میں پاک و ہند میں انگریز کے خود کاشتہ پودے مرزا غلام قادیانی ملعون کی طرف سے دستار ختم نبوت پر ڈاکہ اسلامیان برصغیر کی غیرت ایمانی کو للکارنے کے مترادف تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب مرزا غلام قادیانی نے نبوت کا دعوی کیا تو مجاہدین ختم نبوت اس فتنے کی بیخ کنی و سرکوبی کےلیے میدان عمل میں کود پڑے۔ جس طرح سے مسلمان علما اور عوام و خواص نے اس فتنے کا مقابلہ کیا وہ غیرت ایمانی اور جانثاری کا ایک روشن باب ہے۔ مسلمانوں کا نبی مکرم ﷺ کے آخری نبی ہونے پر اجماع اور جذبہ جہاد انگریز سامراج کےلیے سوہان روح بنا ہوا تھا۔ یہ سچا جذبہ ہی تھا جو مسلمانوں کو انگریزوں کے مقابلے میں بار بار صف آرا کرتا اور بار بار انگریزوں کو شکست فاش سے دوچار کرتا رہا۔ چنانچہ انگریز اس نتیجے پر پہنچے کہ جب تک مسلمانوں کے دلوں سے ان کے نبی کی محبت اور جہاد کا جذبہ ختم نہیں کیا جاتا، تب تک ان کےلیے آرام اور سکون سے حکومت کرنا ناممکن ہے۔ تب انگریز سرکار میں یہ شدت پیدا ہوئی کہ کسی طرح مسلمانوں کے دلوں سے حضور ﷺ کی محبت اور جہاد کا جذبہ ختم ہوجائے۔ اب انہوں نے سوچا کہ ایک نبی کے حکم میں ترمیم و تنسیخ کسی دوسرے نئے نبی کے ذریعے ہی ممکن ہوتی ہے۔ لہذا حکومت برطانیہ کی سرپرستی اور لالچ پر سیالکوٹ کی ضلع کچہری کے ایک منشی "مرزا غلام قادیانی" نے مسیلمہ کذاب کی جانشینی اور اسود عنسی کی معنوی ذریت کا ثبوت دیتے ہوئے برطانوی سامراج کی چال کے مطابق نبوت کا دعوی کر دیا۔ یہ بدبخت منشی گورداسپور (بھارت) کی تحصیل بٹالہ کے ایک پسماندہ گاؤں ’’قادیان‘‘ کا رہائشی تھا. جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ پہلے اس نے خود کو عیسائیت اور ہندو مخالف مناظر کی حیثیت سے متعارف کروایا۔ اس طریقے سے پہلے اس نے مسلمانوں کی جذباتی و نفسیاتی ہمدردیاں اور قبولیت حاصل کی۔ پھر ہذیان بکتے ہوئے کبھی محدث، کبھی مجدد، کبھی ظلی نبی، کبھی بروزی نبی، کبھی مہدی، کبھی مثل مسیح اور کبھی مسیح معود ہونے کے دعوے کرتا رہا اور آخر کار باقاعدہ امر و نہی کے حامل ایک صاحب شریعت نبی ہونے کا مدعی بن بیٹھا۔ بلکہ پھر یہ اعلان بھی کر دیا کہ وہ خود ہی محمد رسول ہے (نعوذباللہ)۔
قارئین! اسلام، پیغمبرِ اسلام اور مقدس شخصیات کے بارے میں اگر مرزا غلام اور قادیانیوں کی گستاخیوں اور ہرزہ سرائیوں کو جمع کیا جائے تو کئی دفتر تیار ہو سکتے ہیں۔ اسلام اور پیغمبر اسلام کی توہین کی جو مذموم مہم مرزا ملعون قادیانی نے شروع کی تھی، اسے اس کے پیروکاروں نے مزید آگے بڑھایا۔ یہی وجہ ہے کہ مرزا غلام قادیانی کو ’’محمد رسول‘‘ اس کی بدقماش بیوی کو ’’ام المومنین‘‘ اس کی عیاش بیٹیوں کو ’’سیدات النساء‘‘ اس کے گھٹیا خاندان کو ’’اہلبیت‘‘ اس کے رذیل گماشتوں کو ’’صحابہ‘‘ اس کی نام نہاد وحی اور الہامات کو ’’قرآن مجید‘‘ اس کی بیہودہ گفتگو کو آحادیث، اس کے ناپاک شہر قادیان کو ’’مکہ‘‘ ربوہ کو’’مدینہ‘‘ اور اس کے مرگھٹ کو ’’جنت البقیع‘‘ قرار دیتے ہیں (نعوذ باللہ من ذلک)۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مرزا غلام قادیانی اور اس کے پیروکار یہودیوں کے ایجنٹ، ہندوؤں کے گماشتے، مغربی طاقتوں کے آلہ کار، پاکستان اور عالم اسلام کے بدترین دشمن ہیں۔
جن علما نے اسلام کے پردے میں چھپے "فتنہ قادیانیت" کو سب سے پہلے بھانپا اور بے نقاب کیا وہ فخر سادات، شیخ الکل فی الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی اور ان کے شاگرد خاص مولوی محمد حسین بٹالوی تھے۔
مشہور ادیب و خطیب، تحریک آزادی کے بیباک رہنما اور تحریک ختم نبوت کے عظیم مجاہد علامہ شورش کاشمیری مرحوم قادیانیت کی تردید میں علمائے اہلحدیث کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: علمائے اہل حدیث نے مرزا صاحب کے کفر کا فتویٰ دیا۔ ان کا فتویٰ ’’فتاویٰ نذیریہ‘‘ جلد اول کے صفحہ 4 پر موجود ہے۔ مرزا صاحب اس فتوی سے تلملا اٹھے۔ اور شیخ الکل میاں نزیر حسین صاحب کو مناظرہ کا چیلنج کر دیا۔ میاں صاحب سو برس سے اوپر ہو چکے تھے۔ اور انتہائی کمزور تھے۔ لہذا آپ نے مرزا صاحب کے چیلنج کو اپنے تلامذہ کے سپرد کیا۔ مرزا صاحب اپنی عادت کے مطابق فرار ہو گئے۔ جن علمائے اہلحدیث نے مرزا صاحب اور ان کے بعد قادیانی امت کو زیر کیا۔ ان میں مولانا محمد بشیر سہوانی، قاضی محمد سلیمان منصورپوری اور مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی سرفہرست تھے۔ لیکن جس شخصیت کو علمائے اہلحدیث میں فاتح قادیان کا لقب ملا وہ مولانا ثناءاللہ امرتسری تھے۔ انہوں نے مرزا صاحب اور ان کی جماعت کو لوہے کے چنے چبوا دیے۔ اپنی پوری زندگی ان کے تعاقب میں گزار دی۔ ان کی بدولت قادیانی جماعت کا پھیلاؤ رک گیا۔ مرزا صاحب نے تنگ آ کر انہیں خط لکھا کہ میں نے آپ سے بہت دکھ اٹھایا ہے اور صبر کرتا رہا ہوں۔ اگر میں کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ آپ لکھتے ہیں، تو میں آپ کی زندگی میں ہلاک ہو جاؤں گا، ورنہ آپ سنت اللہ کے مطابق مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے۔ خدا آپ کو نابود کر دے گا۔ خداوند تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مفسد اور کذاب کو صادق کی زندگی میں اٹھائے۔ (خط مورخہ 15 اپریل 1907) اس خط کے ایک سال، ایک ماہ اور بارہ دن بعد مرزا صاحب لاہور میں اپنے میزبان کے "بیت الخلا" میں دم توڑ گئے۔ جبکہ مولانا ثناءاللہ نے 15 مارچ 1948ء کو سرگودھا میں رحلت فرمائی۔ وہ مرزا صاحب کے بعد 40 سال تک زندہ رہے۔
ان کے علاوہ مولانا ابو سعید محمد حسین بٹالوی، مولانا عبداللہ معمار امرتسری، مولانا محمد شریف کڑیالوی، مولانا عبدالرحیم لکھو والے، مولانا حافظ عبداللہ روپڑی، مولانا حافظ محمد گوندلوی، شیخ الحدیث مولانا محمد اسمٰعیل گوجرانوالہ، مولانا محمد حنیف ندوی، بابو حبیب اللہ اور حافظ محمد ابراہیم کمیرپوری وغیرہ نے قادیانی امت کو ہر دینی محاذ پر خوار کیا۔ اس سلسلہ میں غزنوی خاندان نے بھی عظیم خدمات سر انجام دیں۔ مولانا سید داؤد غزنوی -جو جماعت اہلحدیث کے امیر اور مجلس احرار اسلام کے سیکرٹری رہے- انہوں نے اس محاذ پر بے نظیر کام کیا۔
عصر حاضر میں شہید ملت علامہ احسان الہی ظہیر اور راقم کے والد گرامی شہید ملت متکلم اسلام ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر نے بھی قادیانیت کے محاذ پر شاندار اور تاریخ ساز کام کیا۔ عصر حاضر میں مولانا عبداللہ گورداسپوری مرحوم کے فرزند ارجمند محسن ملت، محافظ عقیدہ ختم نبوت، مؤرخ اہل حدیث پروفیسر ڈاکٹر بہاءالدین سلیمان اظہر نے تحریک ختم نبوت کے باب میں تن تنہا جو کام سر انجام دیا ہے، اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ موصوف نے تحریک ختم نبوت پر تقریباً 75 کے قریب مجلدات نہ صرف تصنیف کیں بلکہ انہیں اپنے ذاتی خرچے پر طبع کروا کر دنیا بھر میں مفت تقسیم بھی کیا۔ اس کام میں ان کے صاحبزادے ہمارے بھائی سہیل اظہر گورداسپوری کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں، ڈاکٹر بہاءالدین سلیمان اظہر کی ختم نبوت کےلیے خدمات ایک مستقل موضوع ہے۔ ان شاء اللہ العزیز اس کو پھر کسی وقت احاطہ تحریر میں لانےکی کوشش کروں گا۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کےلیے کام کرنا عظیم سعادت اور اعلی عبادت ہے۔ جن جن لوگوں نے بھی عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کےلیے کام کیا ہے -ان شاء اللہ- یہ سب قیامت کے دن نبی مکرم ﷺ کے جھنڈے تلے حوض کوثر سے پانی پی رہے ہوں گے اور خاتم الانبیاء والمرسلین حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شفاعت بھی ضرور پائیں گے۔ لہذا ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ ہم نبی مکرم ﷺ کے ساتھ محبت و عقیدت کاحق ادا کرتے ہوئے اور علمائے کرام کی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے عقیدہ ختم نبوت کی پہرے داری کریں، مرزا غلام قادیانی کی ذریت کے باطل عقائد کی بیخ کنی کریں، قادیانیوں کے دجل و فریب اور دسیسہ کاریوں سے مسلمانان عالم کو متنبہ کرتے رہیں؛ تاکہ کل قیامت کے دن ہم اپنے نبی کی شفاعت کے حقدار بن سکیں۔
Comentarios