top of page

عدل کی اہمیت..........تحریر: مولاناامیر محمد اکرم اعوان ؒ

عدل کی اہمیت

تحریر: مولاناامیر محمد اکرم اعوان ؒ


www.Jhelumnews.uk

نظام حیات کادارو مدار عدل پر قائم ہے ۔جب سورج طلوع ہوتا ہے تواس کے غروب ہونے تک، ہر لمحے کا ایک موسم معین ہے ۔گرمی ہے یاسردی ہے، روشنی ہے یا تاریکی۔ اس کی ایک حد (limit)ہے اگر اس حد (limit)کا توازن بگڑتا ہے تو ساری دنیا ڈسٹرب(disturb) ہوتی ہے ۔بارشیں برستی ہیں بادل برستے ہیں ۔ان کی حدود (limits) ہیں۔جب وہ حدودسے کم ہوتی ہیں تو لوگ قحط سالی سے مرتے ہیں اور جب حدود سے تجاوز کرتی ہیں تو لوگ سیلابوں میںڈوب جاتے ہیں ۔ عدل یہ ہے کہ ہر چیز اپنی ضرورت اور اپنے معیار کے مطابق ہو ۔ جب اس سے ہٹے گی تو ناانصافی بن جاتی ہے تو معاشروں کی بنیاد عدل پر ہوتی ہے۔

دل خون سپلائی کرتا ہے۔ اگر یہ جسم کے آخری ذرے (Cell) تک اس کی ضرورت کے مطابق نہ پہنچے تو وجود شل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ انگلیاں مر جائیں گی، ہاتھ بے کار ہوجائے گا، بازو ختم ہو جائے گا، بینائی چلی جائے گی، دماغ خراب ہوجائے گا۔جہاں ضرورت سے زائد جائے گا وہ بھی خراب ہوجائے گا۔ضرورت سے کم جائے گا ،وہ بھی خراب ہو گا۔ ضرورت کے مطابق جائے گا ،یہ عدل ہے۔

معاشرے میں زندگی کے لیے بنیادی عدل، تعلیم ہے ۔ بحیثیت انسان زندہ ہونے کے لیے جس طرح آپ بدن کو غذا دیتے ہیں،کھانا،پانی دیتے ہیں، اس سے زیادہ ضروری تعلیم ہے۔ایک جانور کی زندگی اور انسان کی زندگی میں کیا فرق ہے؟ جانور کچھ نہیں جانتا ،انسان بہت کچھ جانتا ہے۔عدل یہ ہے کہ ایک گداگر کے بچے سے لے کر،(president) پریذیڈنٹ یا وزیراعظم کے بچے تک، کوایک طرح کی تعلیمی سہولیات میسر ہوں ۔عدل یہ ہے کہ جرم اگر صدر صاحب سے سرزد ہوتو وہ بھی اسی عدالت میں اسی اندازمیں پیش ہوںاور ایک عام آدمی سے ہو تواس کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو۔عدل یہ ہے کہ جیل، جیل ہو۔امیر،فقیر،غریب ،حکمران،محکوم، اے ،بی کلاس نہیں۔اے کلاس ہے تو سب کے لیے اے کلاس ہونی چاہیے ۔بی ہے تو سب کے لیے بی ،سی ہے تو سب کے لیے سی ہو۔ یہ کیا ہے کہ ایک آدمی جرم کرے تواسے صوفے بھی لگا دو، دو تین بندے مشقتی بھی دے دو ،خدمت گزار بھی دے دو۔ دوسرا اس سے کم درجے کا جرم کرے تواسے ہتھکڑی ،بیڑی لگا دو۔ یہ کیا ہے؟ یہ عد ل نہیں ہے۔

عدل کی دوسری بنیادیہ ہے کہ فوری ہو، اس میں تاخیر نہ ہو،تاخیر ہوتوعدل نہیںہےJustice) (delayed is justice denayed جس عدل میں تاخیر ہووہ عدل نہیں ہے۔ میرا ایک جماعت کا ساتھی تھا،حافظ قرآن، نیک آدمی تھا،لیکن پرچے(FIR) میںنام آگیا۔ جیسا ہمارے ہاں رواج ہے۔ اللہ بہتر جانے مجرم تھا یا نہیں تھا۔سندھ، میر پور کارہنے والا تھا۔ سیشن کورٹ نے سزائے موت کر دی ،ہائی کورٹ نے سزائے موت کر دی،سپریم کورٹ میں اپیل گئی،سپریم کورٹ نے کہا نہیں،یہ بندہ بے گناہ ہے۔سپریم کورٹ نے بری کر دیا۔ گرفتار ہونے سے بری ہونے تک سترہ برس (seventeen years) لگے۔ سپریم کورٹ سے بری ہوا، جیل سے رہا ہوا، گھر آ یا، دس دن رہا، گیارویں دن ہارٹ اٹیک(Heart Attack) آیا، فوت ہوگیا۔ اس کی زندگی کے سترہ سال جیل میں گزر گئے۔ زمینیں بک گئیں ،عزتیں نیلام ہو گئیں،بچے آوارہ ہو گئے، خاندان اجڑ گیااور انصاف مل گیا کہ آپ تو بے گناہ ہیں،آپ کا کوئی گناہ نہیں ہے۔ باعزت بری ہوگیا۔کیا یہ انصاف ہے؟ جائیداد کے جھگڑے ہوتے ہیں ۔دادا دعویٰ دائر کرتا ہے ۔دادا مرجاتا ہے باپ مر جاتا ہے پوتوںکے نصیب میں کہیں ہو تو فیصلہ ہوتا ہے۔ یہ عدل کے خلاف ہے۔

عدل وہ ہے جوبلا تاخیر ہو بلاتمیز ہو۔فرد کا لحاظ بھی نہ کیا جائے کہ یہ کون ہے؟ ملزم ہے جو بھی ہے۔ملزم کو بطور(as a) ملزم ٹریٹ(Treat) کیا جائے۔بطور ملزم ہی اس کے ساتھ سلوک کیا جائے۔ خواہ وہ بادشاہ ہے، فقیر ہے، امیر ہے۔تاخیر نہ کی جائے،جتنا جلدی ممکن ہو سکے ،اس کا فیصلہ کیا جاسکے۔ سزا ہونی ہے ،سزا ہوجائے ۔بری ہونا ہے تو بری ہو جائے۔عدل کے لیے بلالحاظ ہو، فوری ہو،بلا طمع ہواور پھر ہم الحمد اللہ مسلمان ہیں ۔اسلام نام ہی عدل کا ہے۔اسلام کی ہر بات میں عدل ہے۔والدین کے ساتھ رشتہ،بیوی کے ساتھ رشتہ، اولاد کے ساتھ تعلق، بہن بھائیوں،پڑوسیوں، علاقے، قوم، ملک، بین الاقوامی ،ہر جگہ عدل کی ضرورت ہے۔عدل فرد سے شروع ہوکر معاشرے تک جاتا ہے۔روزی کے وسائل ہیں۔وہاں عدل چاہیے ۔جس میں جو استعداد ہے اسے وہ مواقع ملنے چائیںاور اسے اس طرح کی روزی ملنی چاہیے ۔یہ نہیں کہ آپ فلاں کے رشتہ دار ہیں تو آپ کو یہ جاب مل جائے گی۔آپ فلاں کے رشتہ دار نہیں ہے تو بے شک پڑھے لکھے ہوں ،وہ جاب نہیں ملے گی۔جس میں جو اہلیت ہے، اسے وہ نعمت ملنی چاہیے۔بلکل اسی طرح آپ روز مرّہ کی غذا میں عدل چھوڑ دیں تو آپ بیمار ہوجاتے ہیں۔عدل یہ ہے کہ غذا حلال ہو،صالح ہواورآپ کی طبیعت کے مطابق ہو ، بدن کی طلب کے مطابق ہو۔اس سے زیادہ اس میں ٹھونس دیں گے، وہ بیمارہوجائے گا۔تھوڑی دیں گے وہ خراب ہوجائے گا ۔ اس کے مزاج سے ملتی ہو، آپ کا مزاج گرم ہے۔ آپ گرم پھل کھاتے رہیں گے تو بیمار ہو جائیں گے۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کہتے ہیں میری خیر ہے، دوسرے کو عدل کرنا چاہیے۔ساری پبلک(Public) کہتی ہے، ہماری خیر ہے، حکمرانوں کو عدل کرنا چاہیے۔تمہاری خیر کیسے ہے؟ بائیس کروڑ بندے ہوں اوربائیس بندے حکمران ہیں۔جب بائیس کروڑاافراد عدل نہیں کریں گے تو اس پر اکیس،بائیس بندے کیا عدل کریں گے؟اگر ہم عدل چاہتے تو پہلے ہمیں خود عدل قبول کرنا ہوگا۔اپنی زندگی میں عدل لانا ہو گا اپنے تعلقات میں ،اپنی معیشت میں، اپنے کاروبار میں ،اپنی دوستی، دشمنی میں، ہمیں عدل لانا ،توازن لانا ہوگا۔جب ہم بدلیں گے تو ہر چیز کو بدلنا پڑ جائے گا۔ہم خو د نہیں بدلتے تو پھردوسروں کو کیا بدلیں گے؟حکمران بھی تو ہم ہی میں سے ہیں ، جیسا ہم سوچتے ہیں،وہ بھی سوچتے ہیں۔اگر ہم خو د عدل پر قائم ہوجائیں تو یقینا جب ہم ووٹ ڈالنے جائیں گے، تب ہی ہم عدل کاخیال رکھیں گے۔ ہم دیکھیں گے کہ جس کو ووٹ دینا ہے۔ اس میں اہلیت ہے،دیانت دار ہے،امین ہے، یہ ساری چیزیں دیکھنی ہیں۔ کیا ہم دیکھتے ہیں؟جب ہم چوروں کو ووٹ دیتے ہیں تو عدل کی امید کیوں رکھتے ہیں؟اپنے ساتھ ہم نے خود ناانصافی کی تو دوسروں سے انصاف کی امید ہم کیوں رکھتے ہیں؟ہمارے ہاں سارے انقلاب، سارے نعرے اور سارے ہجوم صرف اس لیے ہوتے ہیں کہ دوسرا سیدھا ہوجائے ۔(اسی طرح ہمارے میڈیا(Media)پر جتنے بھی ٹالک شو (Talk Show)ہوتے ہیں وہ بھی بدقسمتی سے اسی طرح کے ہی ہوتے ہیں) خو د درست ہو جاؤ،خود عدل کرو،ان شاء اللہ معاشرے میں عدل آجائے گا۔میں یہ کہا کرتا ہوں کہ اگر بائیس کروڑ بندے ہیں اور آپ نے اپنے آ پ پر اسلام نافذکرلیا، عدل اپنا لیا تو آپ نے پاکستان کے بائیس کروڑویں حصے پر اسلام نافذکردیا۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ سارے ٹھیک ہوجائیں ۔آپ جس طرح کا معاشرہ چاہتے ہیں کہ اس طرح کا ہوتوآپ اس طرح بن جائیںتوپاکستان کا بائیس کروڑواں حصہ ٹھیک ہوجائے گا۔اللہ کریم صحیح شعور عطا فرمائیں۔


0 comments

Comentarios

Obtuvo 0 de 5 estrellas.
Aún no hay calificaciones

Agrega una calificación
bottom of page