ڈاکٹر فیض احمد بھٹی
ضیغمِ اسلام مخدومِ ملت مولانا معین الدین لکھویؒ
تحریر و ترتیب: ڈاکٹر فیض احمد بھٹی
بفرمائش: حافظ محمد امجد جٹ
مولانا معین الدین لکھوی رحمۃ اللہ علیہ کا نام پاکستان کے مذہبی، سیاسی اور علمی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ آپ جس خاندانِ ذیشان سے تعلق رکھتے ہیں، وہ بھی کسی کےلیے غیر معروف نہیں۔ متحدہ ہندوستان کے ضلع فیروز پور کے ایک گاؤں "لکھوکی" کو آپ کی جائے پیدائش کا اعزاز حاصل ہے۔ آپ یکم جنوری 1921ء کو عالم اسلام کی عظیم شخصیت حضرت مولانا محمد علی لکھویؒ ثم المدنی کے آنگن میں گلاب بن کر کِھلے۔ مستند روایات کے مطابق آپ کا سلسلہ نسب کئی پشتوں بعد حضرت علی بن ابی طالبؓ سے جا ملتا ہے۔ مولانا معین الدین لکھوی کے والد گرامی حافظ محمد علی لکھوی نے کم و بیش چالیس برس تک مدینہ منورہ میں درس و تدریس کی مجلس سجائی اور مدینہ ہی کی پاک مٹی میں آسودۂ رحمتِ باری ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔
مولانا معین الدین لکھوی نے عصری تعلیم مقامی سرکاری سکول سے حاصل کی جبکہ ابتدائی طور پہ اسلامی تعلیم اپنے گھر سے ہی حاصل کی۔ بعد ازاں مروجہ نصاب تعلیم کی بہت سی کتابیں اپنے والد مولانا محمد علی لکھوی اور اپنے ماموں استاد مولانا عطاء الرحمن لکھوی سے پڑھیں۔
ابتدائی تعلیم و تربیت مکمل کرنے کے بعد گوجرانوالہ کےلیے عازم سفر ہوئے جہاں حضرت العلام حافظ محمد گوندلوی اور حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی سے تفسیر و حدیث اورفقہ و اصول کا علم حاصل کیا۔
رائج الوقت علوم و فنون سے واقفیت اور فراغت کے بعد یکے بعد دیگرے حضرت مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی اورحضرت مولانا احمد علی لاہوری کی خدمت میں حاضری دی اور ان سے دورۂ تفسیر قرآن کی تکمیل کے بعد امتحانات میں دونوں مقامات پر درجہ اوّل حاصل کیا۔
مولانا احمد علی لاہوری کے حلقۂ تفسیر میں کامیابی حاصل کرنے والوں -جن میں لکھوی صاحب بھی تھے- کو اسناد و انعامات مولانا عبیداللہ سندھی نے تقسیم کیے۔ آپ محدث العصر عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کے بھی شاگرد رہے۔
مولانا لکھوی کشیدہ قامت، سرخی مائل گوری رنگت، آنکھوں میں حیا، گفتگو میں شائستگی اور مناسب جسامت کے مالک تھے۔ عام رواج کے مطابق اکثر و بیشتر سفید شلوار و قمیض زیب تن کیا کرتے۔ سر پر جناح کیپ اور پاؤں میں بوٹ پہنتے تھے۔
مولانا معین الدین لکھوی دینی حمیت و غیرت کے اعتبار سے انتہائی نازک احساسات کے حامل تھے۔
1953ء کی "تحریک تحفظ ختم نبوت" میں انہوں نے اپنے رفقاء کے ہمراہ بڑھ چڑھ کرحصہ لیا اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ اشاعت دین کےلیے مولانا معین الدین لکھوی مختلف علاقوں کے دورے کیا کرتے۔ جہاں بھی جاتے لوگ ان کا نام سن کر دیوانہ وار اکٹھے ہوجاتے اور پورے ذوق شوق سے ان کے بیانات سنتے۔
پاکستان بننے کے بعد مولانا معین الدین لکھویؒ نے اوکاڑہ میں رہائش اختیار کر لی اور "لکھو کے" والی درسگاہ (جامعہ محمدیہ) کے متبادل اوکاڑہ میں ایک عظیم الشان مدرسہ بنام "جامعہ محمدیہ اوکاڑہ" تعمیر کروایا۔ پھر یہاں سے دوبارہ دعوت دین کی تگ و دو شروع کر دی۔ اوکاڑہ اور اس کے آس پاس علاقوں میں آپ کی بہت زیادہ پذیرائی ہوئی۔ آپ اور آپ کے بڑے بھائی ولی کامل مولانا محی الدین لکھوی نہ صرف مذہبی اور روحانی طور پہ مرجع خلائق تھے؛ بلکہ سیاست اور خدمتِ خلق میں بھی آپ کو بے حد نمایاں مقام حاصل تھا۔ مولانا معین الدین لکھوی کئی بار ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوے۔ آپکو قومی اور ملی خدمات کی بنیاد پر حکومتِ پاکستان کی طرف سے ستارۂ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔
ان کے بعد سیاسی میدان میں ان کے فرزندِ ارجمند ڈاکٹر عظیم الدین لکھوی نے بڑے ہی احسن انداز میں آپ کی مسند کو سنبھالا ہوا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اپنے حلقے کی عوام کےلیے بے لوث خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ حالیہ الیکشن میں ڈاکٹر عظیم الدین لکھوی "پیالہ" نشان پر حلقہNA133 قومی اسمبلی (پی ٹی آئی) کے امیدوار ہیں۔
راقم السطور فیض احمد بھٹی کو حضرت مولانا معین الدین لکھوی اور ولی کامل حضرت مولانا محی الدین لکھوی سے متعدد بار ملاقات کرنے اور ان کے بالمشافہ بیانات سننے کا شرف حاصل ہے۔ جب میں مدینہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا تو حضرتِ لکھوی مرحوم اور انکے صاحبزادے ڈاکٹر عظیم الدین لکھوی سرکاری سطح پہ بطور ضیوف الرحمان سعودیہ تشریف لائے تو راقم کو ان کی خدمت کا موقع ملا۔ لکھوی صاحب اور ڈاکٹر عظیم الدین کو مدینہ یونیورسٹی کا وزٹ بھی کروایا۔ جہاں وکیل الجامعہ سے تفصیلی اور پُر وقار ملاقات ہوئی۔ جس میں جامعہ محمدیہ اوکاڑہ کے الحاق پر خصوصی تبادلہ بھی خیال کیا گیا۔
مولانا معین الدین لکھوی تا دمِ واپسیں مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے سرپرستِ اعلی رہے۔
مخدوم ملت، ضیغم اسلام مولانا معین الدین لکھوی اور ولی کامل مولانا محی الدین لکھوی کی حیات و خدمات اور انکی مایہ ناز آل و اولاد خصوصاً حضرت بارک اللہ لکھوی مرحوم، ڈاکٹر زعیم الدین لکھوی، ڈاکٹر عظیم الدین لکھوی، پروفیسر حماد لکھوی، پروفیسر حمود لکھوی، حضرت زید لکھوی دامت برکاتہم پر تفصیل کے ساتھ کئی کالم لکھوں گا۔
حضرت مولانا معین الدین لکھوی 9دسمبر 2011ء کو اس دار فانی سے کوچ فرما گئے (رحمه الله رحمة واسعة)۔
Comments