top of page
Writer's pictureJhelum News

دنیا کا ذلیل ترین سگا چچا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بقلم ڈاکٹر فیض احمد بھٹی

دنیا کا ذلیل ترین سگا چچا

بقلم

ڈاکٹر فیض احمد بھٹی

چاچے کا تعارف:

قارئین! ابو لہب رسول اللہ ﷺ کا سگا چچا تھا۔ اس کا نام عبد العزی تھا۔ وہ اپنی کنیت ابو لہب سے مشہور تھا۔ چاچا ابو لہب رسول اللہ ﷺ کی دشمنی میں ہر مقام پر پیش پیش رہتا تھا۔ آپ ﷺ دعوتِ اسلام کےلیے جہاں کہیں تشریف لے جاتے، تو یہ ان کے پیچھے جاتا اور لوگوں کو آپ ﷺ کی بات سننے سے روکتا۔ الزام تراشی اس کا وطیرہ بن چکا تھا۔ چنانچہ لوگوں کے سامنے آپ ﷺ کے بارے میں جھوٹا پراپیگنڈہ کر کے ان کے خلاف بھڑکاتا۔ ہر جگہ آپ ﷺ کےلیے رکاوٹیں پیدا کرتا۔ اس نے اسلام اور آپ ﷺ کی مخالفت میں بہت پیسہ بھی لگایا۔ بلکہ اپنے دفتر (دار الندویٰ) میں بیٹھ کر اکثر و بیشتر آپ ﷺ کے خلاف سازشی منصوبے بناتا رہتا تھا۔ بدقسمتی سے یہ آپ ﷺ کا قریبی ہمسایہ بھی تھا۔ اس لیے آپ ﷺ کو گھر میں بھی چین سے نہیں رہنے دیتا تھا۔ آپ ﷺ کو وہاں بھی طرح طرح کی اذیتیں پہنچاتا۔ "سورہ تبت" نازل ہونے کے چند سال بعد جب جنگ بدر میں قریش کے بڑے بڑے سردار قتل ہو گئے، تو ابولہب کو اس قدر دکھ ہوا کہ وہ سات دن سے زیادہ زندہ نہ رہ سکا۔ اسے ایک متعدی بیماری لگ گئی۔ اس لیے گھر والوں نے بھی اسے تنہا چھوڑ دیا۔ مرنے کے بعد بھی کئی دن تک اس کی میت گھر میں ہی پڑی رہی۔ بدبو پھیلنے پر بیٹوں نے چند حبشیوں کو بلا کر اسے مٹی بوس کر دیا۔

چاچے کا نام لے کر قرآن نے اتنی شدید مذمت کیوں کی؟!

قارئین! یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کے دشمن تو اور بھی بہت تھے، بلکہ ابو لہب سے بھی زیادہ خطرناک تھے۔ تو ان تمام دشمنوں میں صرف چاچے ابو لہب کا ہی قرآن میں نام لے کر کیوں ذکر کیا گیا؟ تو اس کی مفسرین نے درج ذیل دو بڑی وجوہات بیان کی ہیں کہ جن کی بنیاد پر قرآن میں اس کا نام لے کر شدید مذمت و مرمت کی گئی۔

پہلی وجہ: عرب میں کوئی باقاعدہ حکومت تو تھی نہیں، جہاں فریاد کی جاسکے۔ لے دے کر ایک قبائلی حمیت ہی وہ چیز تھی، جو ایسے اوقات میں کام آتی تھی۔ مظلوم شخص فوراً اپنے قبیلے کو دادرسی کے لیے پکارتا اور پورا قبیلہ اس کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہوتا۔ اس لیے ان کو اضطراراً بھی صلہ رحمی کا لحاظ رکھنا پڑتا تھا۔ مگر ابو لہب وہ واحد بدبخت شخص ہے، کہ جس نے اس دور کے واجب الاحترام قانون کو توڑ کر اپنے قبیلہ کے علی الرغم ڈٹ کر آپ ﷺ (سگے بھتیجے) کی شدید مخالفت کی اور بے حد ستایا۔ بلکہ خاندان سے جو بھی آپ ﷺ کی حمایت کرتا، یہ چاچا اس کے بھی خلاف ہو جاتا۔ علاوہ ازیں جب بنو ہاشم اور بنو مطلب کو سوشل بائیکاٹ کی وجہ سے شعب ابی طالب میں محصور ہونا پڑا، تو اس وقت بھی چاچے ابو لہب نے اپنے قبیلے کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ اور یہ تو واضح ہے کہ شعب ابی طالب کے محصورین میں بہت سے ایسے لوگ بھی شامل تھے، جو آپ ﷺ پر ایمان نہیں لائے تھے، تاہم قبائلی حمیت کی بنا پر انہوں نے سب کچھ گوارا کیا اور اس قانون صلہ رحمی کے احترام کا حق ادا کیا۔

دوسری وجہ یہ تھی کہ اس قبائلی معاشرے میں چچا کو بھی باپ کا درجہ حاصل تھا۔ بالخصوص اس صورت میں کہ جب کسی کا حقیقی والد فوت ہوچکا ہو۔ تو اس لحاظ سے بھی ابو لہب کو آپ ﷺ کی حفاظت کا فریضہ بطریق احسن بجا لانا چاہیے تھا۔ خواہ وہ کلمہ پڑھتا یا نہ پڑھتا۔ کیونکہ حضرت محمد ﷺ اس کے سگے یتیم بھتیجے تھے۔ مگر یہ بدقماش چچا آپ ﷺ کی حفاظت کی بجائے بغض و عناد اور شیطنت میں اتنا آگے نکل گیا کہ اس کا شمار آپ ﷺ کو ستانے والے صفِ اول کے دشمنوں میں ہوتا ہے۔ اس نے "کوہ صفا" پر جس بدتمیزی اور گستاخی کا مظاہرہ کیا، اس پر آپ ﷺ کے خاموش رہنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ معاشرتی لحاظ سے ابو لہب آپ ﷺ کے باپ کے مقام پر تھا۔ سو ادب کا تقاضا یہی تھا کہ آپ ﷺ خاموش رہتے؛ لہذا آپ خاموش رہے۔ مگر اس چاچے کی بدمعاشی و گستاخی کا جواب خود اللہ تعالیٰ نے اس کا نام لے کر دیا (تبت یدا ابی لہب وتب۔۔۔) جو قیامت تک یہ پیغام دیتا رہے گا کہ ابو لہب دنیا کا ذلیل ترین سگا چچا تھا۔

0 comments

コメント

5つ星のうち0と評価されています。
まだ評価がありません

評価を追加
bottom of page