حضرت عمرؓ کی فضیلت
تحریر:۔ مولانا امیرمحمد اکرم اعوا ن
نبی علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا کہ سب سے بہترین زمانہ میرا ہے، پھر جو میرے بعدہیں ان کا ہے پھر جو ان کے بعدہیں ان کا ہے یہ تین زمانے خیرالقرون کہلاتے ہیں ایک عجیب زمانہ جس میں حاضر ہونے والا ہر فردِوبشر شرف صحابیت سے سرفراز ہواایک نگاہ میںاُسے سارے کمالات حاصل ہو گئے اُس کا دل، ضمیر اور سوچ بدل گئی وہ قبائل جو لوٹ کر کھانا اپنا روزگار اور قتل وغارت گری جن کا شعار تھا ، محنت کر کے کھانے لگے اور اس میں سے دوسروں کو بھی کھلانے لگے جو چوری اور ڈاکے میں مشہورتھے وہ عدل میں معروف ہو گئے جو جہالت میں دنیا بھر میں مشہور تھے وہ ترویج علم کے منارہ نور بن گئے اور روئے زمین کے عادل ترین حکمران قرارپائے سیاسیات اور حکومت کے امور میں بھی وہ سنگ میل ثابت ہوئے ۔
روش زمانہ جو عہد نبوت میں اصلاح پزیر ہوئی تھی، سیدنا ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور سیدنافاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں بھی اسی طرح روبہ کمال رہی اسی لئے محققین لکھتے ہیں کہ خلافت شیخین (سیدناابوبکرصدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ) علی منہاجِ نبوۃ تھی یعنی اس میں وہ طریقہ ، وہ سلیقہ ،وہ برکتیں،وہ رحمتیں ،وہ جذبہ ایمان اسی طرح روبہ کمال رہا جس طرح عہد نبوی علیٰ صاحبہ الصلوٰۃوالسلام میں تھاذوالحجہ کے آخر میں حضرت عمر ؓ کومسجد نبوی ﷺ میں دوران نماز فیروز نامی ایک غلام جو مسلمان نہیں تھا ،نے آپ کو زخمی کیا زخم اتناکاری، پیٹ اس بری طرح سے پھٹا، دو دھاری خنجر کے زخم تھے کہ دودھ اگر آپ کے منہ میں ڈالا جاتا تو زخموں سے باہر نکل جاتاحضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریمؓ ایک معروف زخموں میں بہت ماہر یہودی جراح کو لینے کے لئے تشریف لے گئے ۔ ( تلو ا ر کا زمانہ تھا ،زخم لگتے تھے اور عجیب وغریب مرہمیں اور طریق ِجراحت ایجاد تھے اس وقت) اس نے ملازم سے گھوڑا تیار کرنے کا کہا حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ نہیں اس طرح تو دیر لگ جائے گی تم اپنا یہ بغچہ اٹھاؤ اور میرے پیچھے بیٹھ جاؤابھی راستے میں ہی تھے کہ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے دیکھا۔۔۔۔۔۔گھوڑا روکا ۔۔۔۔۔جراح سے کہا کہ تمہیں تکلیف تو ہو گی لیکن ابھی تم گھر کے قریب ہو میں تمہیں اتار دیتا ہوں تم واپس چلے جاؤ، مجھے مدینہ منورہ جلدی پہنچنا ہے جراح نے کہا کہ عجیب بات ہے آپ نے مجھے گھوڑا لینے دیانہ تیار ہونے دیا لباس تک تبدیل نہیں کرنے دیا اور اب مجھے کہہ رہے ہو کہ واپس چلے جاؤ۔۔۔۔۔۔!فرمایا تمہاری ضرورت نہیں رہی اس نے کہا کہ آپ کو کیسے پتہ چلا کہ میری ضرورت نہیں رہی؟ فرمایا یہ بکریاں کسی دوسرے آدمی کی ہیںاور جس فصل میں گھس گئی ہیں یہ کسی اور بندے کی ہے اور یہ دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ فاروق اعظمؓ دنیا سے اٹھ چکے ہیں۔۔۔۔۔وہ حیران ہو گیا واپس چلا گیا لیکن اس نے وقت نوٹ کر لیا اور جب بعد میں اس نے تصدیق کی اور اسے پتہ چلا کہ واقعی اس وقت حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس دارِفانی سے رخصت ہو چکے تھے تو اس نے کلمہ پڑھ لیا ایک وجود حدِّ فاصل تھا نیکی اور برائی کے درمیان ایک وجود کی یہ برکت تھی کہ کسی کا جانور کسی دوسرے کی فصل میں نہیں گھستا تھا اسی لئے نبی کریم ﷺنے آپ کو فاروق ؓکہا تھا وہ عظیم ہستی یکم محرم الحرام 24 ہجری کو روضہ اطہر میں حضرت صدیق اکبرؓ کے پہلو میں آسودۂ خاک ہوئی۔
آقائے نامدار حضرت محمدرسول اﷲ ﷺ اﷲ کے آخری نبی ایک ہستی وصال الہٰی پا کر برزخ میں جلوہ افروز ہوئی لیکن آپﷺ بھی ایک انسان تھے انسان تو روز آتے جاتے ہیں کیا فرق پڑا۔۔۔۔۔۔۔؟اتنا بڑا فرق پڑا کہ وحی الہٰی ختم ہو گئی قیامت تک کسی پر دوبارہ نازل نہیں ہو گی اﷲ کی طرف سے وحی لانے والا جبریل امین جس کی خدمت حضرت آدم علی نبیناوعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمین پر جلوہ افروز ہونے سے شروع ہوئی اور جو ہر عہدمیں ہر زمانے میں ہر قوم میں مبعوث ہونے والے انبیاء کی طرف اﷲ کی ہدایات لاتا رہا اور کیسا عجیب زمانہ تھا کہ لوگ سوال زمین پر کرتے تھے جواب عرشِ الہٰی سے آتاتھامسئلہ نبی علیہالصلوٰۃ والسلام کی خدمت عالی میں پیش ہوتا جواب کے لئے حضرت جبریل امین تشریف لاتے کہ اﷲ کریم اس کا جواب یہ فرمارہے ہیں صرف ایک ہستی کے پردہ فرمانے سے قیامت تک کے لئے سلسلہ وحی منقطع ہو گیاتو آپ کیا سمجھتے ہیںکہ ایک فرد کے اٹھنے سے کچھ نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟فاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی ایک فرد تھے، ایک انسان تھے چھوٹے سے ایک عام عرب قبیلے، بنو عدی کا ایک عام سا فرد، خطاب کا بیٹا ، لیکن صحبت پیغمبر نے کن عظمتوں اور کن بلندیوںتک پہنچایا؟ عمرسے فاروقؓ بنا دیا۔۔۔۔۔۔حق وباطل میں امتیاز کرنے والا۔۔۔۔۔۔۔۔تفریق کرنے والا ۔۔۔۔۔۔۔۔سچ اور جھوٹ کوالگ الگ کرنے والا ۔۔۔۔۔۔ظلم اور انصاف کے درمیان حد فاصل قائم کرنے والا۔۔۔۔۔۔
بیت المقدس کی فتح کے وقت نصرانیوں کے علماء نے شرط لگائی تھی کہ آپ اپنے امیر کو لے آئیں ہم دیکھ کر سمجھ لیں گے کہ یہ خلیفہ دوم ہے اور اس کے ہاتھ پر شہر فتح ہونا ہماری کتاب میں لکھا ہوا ہے ہم لڑیں گے نہیں اور اگر وہ بندہ نہیں ہے تو ہم لڑیں گے اور سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب تشریف لے گئے اور انہوں نے دیکھا تو شہر خالی کر دیا کیو نکہ حضورﷺ کی ذات تو بہت بلند ہے آپ ﷺ کے خدام کے بارے میںبھی ان کے پاس حلیے، قد، عادات و خصائل اور لباس تک کی پیش گوئیاں موجود تھیںفاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ جمعہ کے خطبے میں کہ دیا کہ لوگو! اگر مجھ سے حضورﷺ کا اتباع اور آپ ﷺ کی سنت اور صحیح طریقہ چھوٹ جائے تو کیا کرو گے؟ ایک بدوی کھڑا ہو گیا اور اس نے میان سے تلوار نکال لی اور کہا آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی اگر دائیں بائیں ہوں گے ہم آپ کو سیدھا کر دیں گے ابھی ہم میں جان ہے اگر لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے تو بھی قرآن سمجھنا جانتے تھے کہ انہوں نے براہ راست حضرت محمدرسول اﷲ ﷺ سے سیکھا تھا۔
سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲتعالیٰ عنہ کو مرض تھا ان کے پیٹ میں ایسی بیماری تھی کہ جوَ کا کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا اور مدینہ منورہ میں ایسا قحط پڑا کہ گندم کی روٹی کسی کو میسر نہیں تھی آپ جوکھاتے تھے اور بیمار رہتے تھیکام نہیں کر سکتے تھے حرج ہوتا تھا طبیب نے عرض کی کہ حضرت ایک آدمی کے لئے تو گندم ملنا محال نہیں ہے جو آپ نہ کھائیں خلافت کانقصان بھی ہوتا ہے اپنے دفتری امور پورے نہیں کر سکتے اور اس پر مزید یہ کہ ایذا ہوتی ہے، مروڑ اٹھتے ہیں، تکلیف ہوتی ہے فرمانے لگے بات تو تیری ٹھیک ہے لیکن جو بندے اﷲ نے میرے سپرد کر دیئے ہیں یہ جوَ کھائیں اور میں غلہ کھاؤں توکل کیاتم اﷲکے حضورمیری طرف سے جواب دو گے؟ہے تجھ میں جرأت؟ جب تک عام شہری کو غلہ نہیں ملتا عمر کو حق حاصل نہیں کہ وہ غلے کی روٹی کھائے ایک دفعہ آپ نے فرمایاکہ دجلہ کے کنارے کوئی کتا بھوکا رہ گیا تو عمر ابن خطابؓ پکڑا جائے گا کہ تجھے سلطنت اس لئے تو نہیں دی جاتی کہ میری مخلوق پر ظلم ہو اور وہ بھوکے بلک بلک کر مر جائیں سفر آخرت کے وقت کسی نے عرض کیا کہ آپ اپنے بیٹے عبداﷲ کو اپنا جانشین بنایئں اور حضرت عبداﷲ ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس کام کے اہل بھی تھے وہ عہد صحابہؓ کے مانے ہوئے فقیہہ تھے آج بھی انہی کی سند اختیار کی جاتی ہے مشورہ دینے والے سے فرمایا میدان حشر میں جواب دینے کے لئے خطاب کی اولاد میں سے میں اکیلا کافی ہوں کیا تو یہ چاہتا ہے کہ میرا سارا خاندان میدان آخرت میں پکڑا ہوا کھڑا ہوں اس جواب دہی کے لئے کہ تو نے میرے بندوں کے ساتھ کیا کیا؟
جو انداز عہد فاروقیؓ میں حکومت کو دئے گئے آج تک کوئی ان پر اضافہ نہ کر سکا محکموں کی تقسیم ،مختلف شعبوںمیں مختلف درجے، حکومت میں گورنر اور وزیر اور پھر صوبے، ضلعے ،تحصیلیں ،گاؤں،زمین کی پیمائش ،زمین کا لگان،مالیہ، ملکیت ،بنیادی محکمے، بحری بیڑے کی تشکیل، فوج اور فوج کی چھاؤنیاں، پولیس اور اس کا طریقہ کار، عدلیہ اورانکے حکام کی حدودیہ سارا وہ نظام ہے جو سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ترتیب دیا تھا عہد فاروقیؓ میں ویلفیئر سٹیٹ منظم ہو چکی تھی کہ بیت المال اورمال زکوٰۃ، تعلیم اور علاج ،بے روزگاروں کے و ظائف، بیماروں، بیوگان اور یتیم بچوں کی سن بلوغت تک کفالت مومن تو مومن کافر جو معذورین تھے ان پر نہ صرف جزیہ معاف کر دیا جاتابلکہ انہیں بیت المال سے وظیفہ دیاجاتاجو Structure سیدنا فاروق اعظم ؓنے بنایا تھا آج تک دنیا کی کوئی حکومت اس پر اضافہ کر سکی نہ کوئی تبدیلی سوشلسٹ ، جمہوری یاشہنشاہیت پسند، ہر حکومت کے لئے فاروقی نظا م نمونہ ہے دنیا کی ساری حکومتوں کی تاریخ دیکھ لیجیئے سب کی مجبوری ہے کہ اس نظام کو Followکریںسب کا طریقہ کار وہی ہے نام اپنا اپنا دیتے رہتے ہیں اﷲ کریم نے اتنی وسعت نظری کسی کو دی ہی نہیںکہ اس میں تبدیلی کر سکے ایک شخص نے اپنے عہد حکومت میں چھبیس لاکھ مربع میل ،گھوڑے کی پیٹھ پر یا پیدل چل کر علاقہ فتح کیا اس کے سپاہیوںنے پینتیس ہزار بڑے بڑے شہر آباد کئے جن میں نامور قلعے بھی تھے چھبیس لاکھ مربع میل علاقے میںکسی بوڑھے کی آہ ، کسی بچے کے رونے کی صدا نہیں آتی کسی عورت کی چیخ سنائی نہیںدیتی کوئی کافر بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرے ساتھ زیادتی ہوئی یا فاروق اعظم رضی اﷲتعالیٰ عنہ کے کسی سپاہی نے میرے ساتھ ظلم کیا۔
مغرب میں سے سب سے پہلے برطانیہ نے ویلفیئر سٹیٹ بنائی جارج ہفتم کے زمانے میں اس کی بنیاد رکھی گئی اس کے بعد برطانیہ میں ملکائیں آ گئیں جس پروفیسر نے اس کی بنیاد رکھی ایک ملاقات میںاس نے بتایا کہ مجھے بادشاہ نے اس کمیٹی کا سربراہ بنایا تھاجسے برطانیہ کو ویلفیئر سٹیٹ بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی تومیں نے بڑے غور اورگہری نظر سے قرآن حکیم کا مطالعہ کیا، اس کی مختلف تفسیریںاور تراجم پڑھے پھر میں نے تاریخ سے عہد فاروقیؓ کو نکالا ان کے نظام کو پڑھا تو مجھے سمجھ آئی کہ قرآن سے تو مجھے اشارے ملے ہیںان کی عملی تعبیرفاروق اعظم رضی اﷲتعالیٰ عنہ نے متعین کر دی لہٰذا میں نے عہد فاروقیؓ کا نظام جوں کا توں لا کر بادشاہ کے سامنے رکھ دیا فرق صرف یہ رہا کہ اس عہد میں زکوٰۃ فرض تھی اور ان کی آمدن کی مد زکوٰۃ تھی جب کہ ہم نے اپنی آمدنی کی مد مختلف ٹیکسوں پر رکھی زکوٰۃ بھی ایک ٹیکس تھی اور ہم نے اپنی ضرورت کے مطابق ٹیکس لگائے لیکن اس کی ساری تقسیم اسی طرح ہوتی ہے اور آج بھی برطانیہ اپنی عام زبان میں اس ویلفیئر سٹیٹ کے سسٹم کو دی عمرز لاز ہی کہتے ہیں جب اس قانون کا حوالہ دینا ہوتو وہ کہتے ہیں کہ This is according to Umer's Laws.......so and soاﷲ کا عظیم بندہ جس کے بنائے ہوئے طرزِ حکومت اور ویلفیئر کے تصور پر کوئی اضافہ نہ کر سکا اس لئے نہ کر سکا کہ سارا نظام ہی وہ تھا جو اﷲکی کتاب میں نازل ہوا۔
Comments