top of page
Writer's pictureJhelum News

حضرت علامہ محمد مدنی رحمۃ الله علیہ (حیات و خدمات)نیرِ قلب:ڈاکٹر فیض احمد بھٹی

حضرت علامہ محمد مدنی رحمۃ الله علیہ (حیات و خدمات)

نیرِ قلب:

ڈاکٹر فیض احمد بھٹی

ماہِ فروری میں ایک عظیم شخصیت کا مُرقّع آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے: بارعب چہرہ، آنکھوں میں متانت، پُروقار ریش، دبنگ لہجہ، دوٹوک موقف، مُدلّل گفتگو، قرآن و سنت کی أدِلّہ و براہین سے مُزیّن دروس و خطبات، دیانت دارانہ طرز حیات، خودار زندگی، پابندِ صوم و صلاۃ، علم و عمل کے پیکر اور مرنجاں مرنج طبیعت و اوصاف کے اِس مجموعے کو اگر کسی قابل قدر شخصیت کا نام دیا جائے تو وہ جہلم کے علامہ محمد مدنی ؒ ہیں۔

پاکستان کو بالعموم اور جہلم کو بالخصوص قرآن و سُنت کی روشنی سے منوّر کرنے میں آپ کا کردار ناقابلِ محو ہے۔ آپ نے اپنی پوری زندگی خدمتِ اسلام میں صرف کی۔ جہلم کے ہر کونے اور فرد تک قرآن و حدیث کا پیغام پہنچانے کےلیے آپ نے انتھک مساعی کیں۔ آپکی شبانہ روز محنتوں کا ثمر ہے کہ آج جہلم کا گوشہ گوشہ توحید و سنت کی نورانی کرنوں سے روشن ہے۔

آپ کو شیخ العرب و العجم کہیں تو بیجا نہ ہوگا؛ کیونکہ آپ جتنے ہر دلعزیز پاکستان میں تھے، اُس سے کہیں زیادہ عرب شیوخ کے ہاں تھے۔ آپ کو عرب ممالک خصوصاً سعودی عرب میں والہانہ قدر و نگاہ سے دیکھا جاتا۔ سعودی حکُامِ بالا، علماء اور مشائخ خصوصاً آئمہ حرمین شریفین سے آپ کے پُر خلوص مراسم تھے۔ آپ اور آپ کے والدِ گرامی حضرة الحافظ عبدالغفور ؒ کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ ان کی دعوت پر امامِ کعبہ محمد بن عبداللّٰہ السُبیّل ؒ نے سرزمینِ جہلم پر قدم رنجہ فرما کر اس خطہ ارضی کو شرف یاب کیا۔ موصوف کی دعوت پر لبّیک کہتے ہوئے بیسیوں عرب سفیروں، وزیروں، شیوخ اور عالم اسلام کی اعلی شخصیات نے

جامعہ علوم اثریہ جہلم میں حاضری دیکر جامعہ اور جہلم کو رونق بخشی۔ علامہ مدنی کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ مدینہ یونیورسٹی میں دورانِ تعلیم آپ مسجد نبوی شریف میں مسلسل درسِ قرآن و حدیث دیتے رہے۔

خطابت میں آپ کو یدِ طولیٰ حاصل تھا۔ الفاظ کے زیر و بم اور لہجے کی گھن گرج سے آن کی آن میں محفل کو گرما دیتے۔ عام سے عام مضمون کو بھی انفرادیت بخش دیتے۔ زیر بحث موضوع سے پورا پورا انصاف کر تے، جبکہ حالاتِ حاضرہ پر گفتگو کرنا اور ملک کو درپیش مسائل پر گہری نظر رکھنا بھی آپ کے خطابات کی خصوصیات میں سے تھا۔

توحید و سنت کے صافی عقیدے کی اشاعت و ترویج میں آپ نے کمالِ حکمت سے کام لیا۔ حاقدین کی ریشہ دوانیوں اور نامساعد حالات کے باوجود آپ نے جہلم اور اس کے اطراف و اکناف میں مساجد اور دینی مدارس کا جال بچھایا۔ اور ان مساجد کی آبادکاری کے لیے تمام سہولیات بھی فراہم کیں۔

جامعہ علوم اثریہ للبنین و للبنات کو خالص شرعی علوم کی تعلیم و تدریس اور اشاعت کے سلسلے میں جس قدر پذیرائی اور ترقی موصوف کے ذریعے اور زمانے میں اللّٰہ تعالیٰ نے عطا کی اس کی نظیر دُور دُور تک نہیں ملتی۔ اِفادہ عام کےلیے جامعہ علوم اثریہ للبنین میں ایک نایاب لائبریری قائم کی۔ پھر اسے نادر کتب اور مخطوطات سے لبریز بھی کیا۔ آپ نے کئی اہم دینی کتابوں کا ترجمہ، طباعت اور فی سبیل اللہ تقسیم بھی کروائی۔

آپ کا دائرہ کار محض مساجد و مدارس تک ہی محدود نہ تھا، بلکہ مختلف النوع رفاہی و فلاحی کام بھی آپ نے سرانجام دیے: سینکڑوں مقامات پر کنوئیں کُھدوائے، نلکے لگوائے، ہسپتال بنوائے، ڈسپنسریاں قائم کیں، یتیموں کے وظائف لگوائے، حاجتمندوں کےلیے مالی امداد فراہم کی۔ جامعہ علوم اثریہ کے زیر اہتمام مستقل طور پہ سالانہ میگا (فری آئی کیمپ) بھی جاری کروایا۔ جو تا حال جاری و ساری ہے۔

عراق کویت جنگ میں آپ نے جس پامردی اور جرأتمندی سے کویت کی پرزور حمایت اور عراقی جارحیت کو للکارہ وہ پاکستان کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ آپ نے حرمین شریفین کے تحفظ کےلیے ایک مضبوط تنظیم (تحفظ حرمین شریفین موومنٹ) کے نام سے قائم کی۔ اور ببانگ دہل کہا: ہم مکے اور مدینے کی حرمت و دفاع کےلیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہادیں گے۔ آپ کی اس آواز نے ایک ایسی ہلچل مچائی کہ دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک کو آپ کے موقف کی مکمل تائید کرنا پڑی۔

جماعتی معاملات ہوں یا خاندانی اتحاد اور یگانت کی فضا قائم رکھنا آپ ہی کا طغرائے امتیاز تھا۔ جبکہ والدِ گرامی حضرت الحافظ عبدالغفور ؒ کے دینی اور جماعتی مشن کو آگے بڑھانے میں مرحوم نے جو فعال کردار ادا کیا وہ سونے کے پانی سے لکھنے کے قابل ہے۔ دنیا آج بھی اُن کی دینی، قومی اور فلاحی خدمات کی از حد معترف ہے۔

مکروہات سے آپ نے خود کو ہمیشہ دور رکھا۔ اپنا دامن مسجد و مدرسہ اور خدمتِ خلق سے دائم وابستہ رکھا۔ دنیاوی فوائد و لذائذ کو ہمیشہ پائے استحقار سے ٹھکرایا۔ آپ کے دل میں کبھی بھی دنیاوی لوبھ و لالچ جگہ نہ پاسکا۔ موصوف نے اس فانی دنیا کو فانی سمجھ کر شب و روز گزارے۔ اپنی آخرت کو کامیاب بنانے کی ہر ممکنہ کوشش کی۔ اِن نیک خصائل کے باعث دمِ واپسین اللّٰہ کریم نے آپ کی زبان پر بآوازِ بلند کلمہ طیبہ (لا إله إلا اللّٰه محمد رسول اللّٰه) جاری فرمایا۔

مؤرخہ 18فروی 2002 کو یہ علم و عمل کا پیکر اور خدمتِ خلق کا ساغر اس دارِ فانی سے رخصت ہوگیا۔ اللهم اغفرله وارحمه وأسكنه في الجنة الفردوس، آمین!


0 comments

Comments

Rated 0 out of 5 stars.
No ratings yet

Add a rating
bottom of page