حضرت امام حسین ؓ اور انسانی حقوق
تحریر: مولانا امیرمحمد اکرم اعوان
محرم میں وہ عظیم شہادت ہے جس میں اکیلے حضرت حسینؓ ہی نہیں، خانوادہ نبوت ﷺ کے سارے کے سارے چشم و چراغ موجود تھے اور خاندان نبوت کا ایک ہی فرد بچ سکا، حضرت زین العابدین ؓ جن کی عمر بھی کم تھی لیکن ان سے کم عمر بچے شہید ہوئے۔انہیں بڑا تیزبخارتھا اور وہ اٹھ نہ سکے اور یہی ان کے بچنے کا سبب اللہ نے بنا دیا۔اللہ کریم اس پاک نسل کو جاری رکھنا چاہتے تھے۔ ورنہ سارا خانوادہ رسولﷺ ایک بات پہ قربان ہو گیا، سمجھوتہ نہیں کر سکے۔ یزید نے کوئی نیا کلمہ جاری نہیں کیا تھا، اعلان نبوت نہیں کیا تھا،قرآن کا انکار نہیں کیا تھا۔ بات یہ تھی کہ حضرت حسین ؓ کا اعتراض تھا کہ یزید مسلمانوں کے انتظام و انصرام میں سنت سے ہٹ کر اپنی مرضی کے احکامات بھی شامل کرتا ہے۔ اس لئے یہ اس منصب کا اہل نہیں، یاتو یہ توبہ کرے یا اس کی جگہ کسی اور کوخلیفہ بنایا جائے۔ کسی کتاب میں یہ نہیں ملتا کہ انہوں نے خود خلافت کا دعویٰ کیا ہو یا حصول اقتدار کے لئے نکلے ہوں
آنے والی حکومتوں کے لئے ایک دروازہ کھل رہا تھاکہ ہر حکمران جو جی چاہے کرے۔جگر گوشہ رسول ﷺ نے محسوس کیا کہ اگر یہ دروازہ یہاں کھل گیا تو کل حکومت الگ ہو گی اور دین الگ ہو گا۔ جبکہ اسلام پورا نظام حیات ہے۔سیاست بھی اس کے اندر ہے، امامت بھی اس کے اندر ہے، انسان نائب ہے۔ حکمران سرے سے ہے ہی نہیں۔انسان اللہ کے رسول ﷺکا خلیفۃ اللہ فی الارض ہے۔لوگوں کے حقوق کا امین ہے۔ اس کے ذمے ہے کہ لوگوں کو تحفظ دے، لوگوں کے رزق کے انتظامات کرے۔لوگوں کی تعلیم کا اہتمام کرے۔ لوگوں کے علاج معالجے کی سہولت بہم پہنچائے۔ ان سب کا وہ ذمہ دار ہے، خود شہنشاہ نہیں ہے۔جو کردار یزید اپنانا چاہتا ہے کہ اپنی مرضی کے احکام شروع کر دے تواس کا اثر یہ ہو گا کہ دین پھر مسجدوں میں رہ جائے گا اور حکومت ایوان اقتدار میں رہ جائے گی۔ اس کا سد باب کرنے کے لئے نواسہ رسول ﷺ نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا اور اس انکار کی قیمت ادا کی خاندان رسول ﷺ کے بچوں سے لے کر بزرگوں تک کہ سب کو قربان کر دیا۔ ایک زین العابدین ؓ جو معصوم تھے، کم عمر تھے اور بیمار تھے پھرخانوادہ نبوی ﷺ کی مستورات جن کو سورج بھی دیکھنے سے شرماتا تھا۔آپ ؓکے ہم رکاب تھیں،کوئی سمجھوتہ کر لیتے؟ ان سب کو بچا کر لے جاتے۔کیا نبیﷺ کو خاک و خون میں لت پت لاشوں، ان پیاس سے تڑپتے بچوں اور اپنی اولاد کا دکھ نہیں ہو گا؟حضرت حسین ؓ سے نہیں پوچھیں گے کہ تم نے جان دینی تھی دیتے،میراسارا خاندان کیوں ذبح کروا دیا؟
نبی کریم علیہ الصلوٰۃوالسلام نے پچھنے لگوا ئے خون مبارک نکلاتو آپ ﷺ نے ایک صحابیؓ کو دیاکہ یہ دور جا کر دفن کر آؤ۔وہ گئے اور برتن صاف کر کے واپس محفل میں آئے تو حضور ﷺنے پو چھا بھئی دفن کر دیا تھاچپ.....فرمایا میں نے خون دیا تھا دفن کر دو۔ کردیا؟ یا رسول اللہ ﷺ میں نے وہ سارا پی لیا۔آپ ﷺ نے فرمایا تیرے وجود کا حصہ اگر میرا خون بن گیاہے تو تجھ پر دوزخ کی آگ حرام ہو گئی۔ آپ ﷺ نے بیماری کی حالت میں ایک پیالے میں پیشاب فرمایا۔ایک خادم کو دیاکہ پیشاب باہر پھینک آؤ۔برتن خالی کر کے واپس آیا۔آپ ﷺ نے پوچھا، پھینک دیاہے تو وہ شخص خاموش...آپ ﷺ نے فرمایا میں نے پوچھا ہے کہ جو پیشاب لے گئے تھے کیا پھینک دیا ہے؟ تو اس نے کہا یا رسولللہ ﷺ میں نے پی لیا ہے فرمایاکوئی بیماری اب تمہارے نزدیک نہیں آئے گی۔اس پاک نبیﷺ کا خون تھاجو کرب و بلا میں ریت پر بہہ کر جذب ہو رہا تھا۔ اُس پیغمبر ﷺ کا وہی مبارک خون تھا۔ جو گلشن رسولﷺ کے ننھے ننھے پھولوں کی گردنوں سے ابل رہاتھا۔حضرت حسین ؓ کو کیوں جرأت ہوئی؟ حضرت حسینؓ کے پاس کیاجواب ہو گا؟ سوچو! میں نے سوچا ہے کہ وہ عرض کریں گے ”اے میرے حبیب ﷺ، اے میرے نانا ﷺ، ایک روش پڑ رہی تھی کہ تیرا دین تو ملا کے پاس رہ جائے اور ایوان اقتدار سلاطین کے پاس ہو۔ میں نے اسے روکنے کے لئے تیرا سارا خاندان قربان کر دیا“ تو حضور ﷺ فرمائیں گے ”بے شک میری جان، میرا مال، میرا خاندان،میرا خون اور میرا سب کچھ اس لئے ہے کہ اللہ کا دین سر بلند رہے۔ تجھے یہی کرنا چاہئے تھاجو تو نے کیا“۔
آج پھر محرم ہے سوال یہ ہے کہ آج کیا ہم میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو تلاش کرے کہ میری ذات کے اندر میری اپنی ذات کتنی ہے اور اتباع رسول اللہ ﷺ کتنا ہے؟ اگر میں زندگی کے امور میں اپنی پسند استعمال کرتا ہوں تو ایک یزید میرے اندر بھی ہے۔یزیدیت کیا ہے؟ یزید کے ذمے یہی جرم تھا تو کربلاہمارے اندر موجود ہے۔ ہمارے اندر ایک حسینؓ بھی ہے۔ہمارے اندر ایک یزید بھی ہے سب سے پہلے ہمیں اپنے اندر دیکھنا چاہیئے کہ ہم کیا حضرت حسینؓ کی صفوں میں کھڑے ہیں؟ کیا ہم قرآن وسنت کا اتباع کر رہے ہیں؟کیااپنی معیشت میں،اپنی سیاست میں، اپنے کاروبار میں، اپنی تعلیم وتربیت میں، لوگوں کے حقوق میں،لوگوں کے ساتھ معالات میں، ہمارا کردارحسینی ؓ ہے یا ہم بھی کہیں یزید کا ساتھ تو نہیں دے رہے؟ محرم کادرس یہ ہے کہ حق و صداقت کیلئے،لوگوں کے حقوق کے لئے، جو اللہ نے لوگوں کو حقوق دیے ہیں۔ان پر کوئی بڑے سے بڑا حاکم بھی اپنی مرضی چلانا چاہے تو حضرت حسین ؓ کا فیصلہ یہ تھا کہ ان کے حقوق کے حصول کے لئے خانوادہ نبوتﷺ بھی قربان کیا جا سکتا ہے۔ ان کے ساتھ کا کوئی انسان دنیا میں پیدا نہیں ہو گا ”انا سید ولا ادم ولا فخر اوکی قال رسول اللہ ﷺفرمایا میں اولاد آدم کا سردار ہوں۔ یہ بات میں فخر سے نہیں کہہ رہا۔یہ اللہ کا مجھ پہ احسان ہے“ حضرت حسینؓ آپ ﷺکے نواسے تھے۔حضرت حسینؓ اور حسن ؓکی ہی اولاد تھی۔ رسول اللہ ﷺ کی یہ تیسری پشت ہے۔حضرت حسین ؓکا فیصلہ یہ تھا کہ لوگوں کے حقوق کا تحفظ ضروری ہے خواہ اس کے لئے سارا خاندان نبوت بھی قربان کرنا پڑ جائے۔ جب کہ آج ہم اپنی ادنیٰ سی خواہش پوری کرنے کے لئے دین کو زینہ بنالیتے ہیں۔دین قربان کر دیتے ہیں۔اپنی خواہشات قربان نہیں کرتے۔
میرے بھائی! اللہ ہمیں نیکی کی توفیق دے۔ملک کو امن کا گہوارہ بنانے میں اپنا حصہ ادا کرو۔ اس پہ نہ رہو کہ دوسرے بنائیں گے۔لوگوں کو زندگی مہیا کرو، لوگوں کی موت کا سبب نہ بنو، لوگوں کو فراخی مہیا کرو، اُن کی روزی چھیننے کا سبب نہ بنو، لوگوں کو عزت و آبرو مہیا کرو۔جس طرح اپنی عزت کا تحفظ چاہتے ہو، اس طرح دوسروں کی عزت کا تحفظ کرو۔اللہ کریم آپ سب کو توفیق عمل دے،ہمارے گناہ معاف فرمائے، اس ملک کو ہمیشہ قائم رکھے اور اس پر دین حق کی حکومت قائم فرمائے۔اٰمین
Comments