جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
بقلم: ڈاکٹر فیض احمد بھٹی
يہ دنیا وہ ہے جس نے حضرت یوسف کو حقیر ترین قیمت میں بیچا، حضرت ابراہیم کو دہکتی آگ میں پھینکا، حضرت موسیٰ کو بے گھر کیا، حضرت عیسیٰ کو سولی تک پہنچایا، حضرت محمدﷺ کو طائف میں پتھر مار مار کر لہو لہان کیا، حسنین کریمین سمیت آلِ رسول کا کوفے کربلا میں حشر نشر کیا۔۔۔!!! کیا یہ دنیا آپ کو کندھوں پر اٹھاۓ گی!؟ نہیں، بالکل نہیں؛ لہذا اس دنیا اور دنیا والوں سے امیدیں وابستہ نہ کیجئے! یقین کیجئے اگر آپ دنیا سے بے رغبتی اختیار کر لیں، اللہ کی طرف لو لگا لیں، تو آپ کو اس دنیا سے ملنے والے آدھے سے زیادہ غم خود بہ خود ہی ختم ہو جائیں گے۔ یاد رکھیے! دنیا کی زندگی عارضی و فانی ہے۔ اس کی نعمتیں، آسائشیں اور لذتیں آخرت کے مقابلے میں حقیر ترین اور ناپائیدار ہیں۔ اس کی حیثیت اس مسافر خانے جیسی ہے جس میں انسان یہ سوچ کر تھوڑی دیر کےلیے ٹھہر جائے کہ اس کا سفر ابھی باقی ہے۔ مطلب اپنی اصلی منزل پر پہنچنا ابھی باقی ہے۔ اسی طرح مومن کی حقیقی منزل آخرت ہے۔ جہاں اسے مال و متاع کے ساتھ نہیں بلکہ حسنات و صالحات کے ساتھ حاضر ہونا ہے۔ لہذا ہمیشہ ہی مومن کا مطمع نظر اور مطلوب و مقصود آخرت ہونی چاہیے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ مومن دنیا ترک کر کے تمام عیش و آرام کو اپنے لیے ممنوع قرار دے لے۔ اور اپنے اہل و عیال سے کٹ کر خانقاہوں اور غاروں میں جاکر رہبانیت اختیار کر لے! ایسا نہیں؛ بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی کی ہدایت سے بے نیاز ہو کر، حلال و حرام کی تمیز کیئے بغیر صرف دنیاوی زندگی، عیش و عشرت، اور خوشحالی میں مستغرق نہ ہو جائے۔ بلکہ اپنی دنیاوی زندگی کے ہر پہلو میں اخروی زندگی کی فلاح و بہبود کو نہ صرف پیش نظر رکھے بلکہ اس فانی زندگی پر اس کو ترجیح بھی دے۔ حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے میرے کندھے کو پکڑا اور فرمایا: تم دنیا میں اس طرح زندگی گزارو گویا کہ تم اجنبی ہو یا مسافر (بخاری شریف) یعنی انسان جس طرح حالتِ سفر میں یا نئے لوگوں کے مابین اجنبی ہونے کی بنیاد پر چوکنا ہو کر احتیاط کو ملحوظ رکھتا ہے۔ اسی طرح اس کار خانۂ حیات میں بھی دنیا کی دل فریبیوں اور رنگینیوں سے دور رہ کر گناہوں سے بچتے ہوئے مکمل احتیاط کے ساتھ اپنی زندگی ایسے بسر کرے، جیسے ایک راہی خاردار جھاڑیوں کے درمیانی راستے میں کانٹوں سے مکمل احتیاط کے ساتھ دامن سمیٹے ہوئے چلتا ہے۔ کیونکہ اسی احتیاط میں آخرت کی حقیقی کامیابی پنہاں ہے۔ یہ بات ذہن نشیں رہے! کہ جس شخص کے دل میں آخرت کی فکر رچ بس جائے وہ دنیا سے کسی نہ کسی حد تک بیزاری و اجنبیت ضرور محسوس کرنے لگتا ہے۔ ایک حدیث پاک کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: مجھے اپنی امت کے بارے میں جس چیز کا سب سے زیادہ اندیشہ ہے وہ یہ کہ میری امت خواہشات کی پیروی اور دنیا کے لمبے چوڑے منصوبے بنانے میں لگ جائے گی۔ اور اس خواہشاتِ نفس کی پیروی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ حق سے دور ہو جائے گی۔ اور دنیا سازی کے منصوبے اسے آخرت سے غافل کر دیں گے۔ اگر تم استطاعت رکھتے ہو تو دنیا کے پرستار نہ بنو! اس وقت تم دار العمل(دنیا) میں ہو اور حساب کا وقت ابھی نہیں آیا ہے۔ کل تم دار الحساب(آخرت) میں ہوگے، جہاں عمل کا کوئی موقع نہیں ملے گا۔ (مشکوٰۃ شریف) قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتا ہے: {وَمَا أُوتِیْتُم مِّن شَیْء فَمَتَاعُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَزِیْنَتُها وَمَا عِندَ الله خَیْرٌ وَأَبْقَی أَفَلَا تَعْقِلُونَ}۔ تم لوگوں کو جو کچھ بھی دیا گیا ہے وہ محض دنیاوی زندگی کا عارضی سامان و زینت ہے۔ اور جو کچھ اللہ تعالی کے پاس ہے وہ اس سے بہتر اور پائیدار ہے۔ کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے!!! درج بالا آیات و روایات کی روشنی میں ضروری ہے کہ ہم عقل و شعور سے کام لیں۔ اس دار العمل میں اعمال صالحہ کا ذخیرہ کرنے کی کوشش کریں، تاکہ دار الجزاء میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہو سکیں۔ بقول شاعر:
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے،
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
جہاں میں ہیں عبرت کے ہر سُو نمونے
مگر تجھ کو اندھا کیا رنگ و بُو نے
کبھی غور سے بھی دیکھا ہے تو نے
جو معمور تھے وہ محل اب ہیں سُونے
ملے خاک میں اہلِ شاں کیسے کیسے
مکیں ہو گئے لا مکاں کیسے کیسے
ہوے ناموَر بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی نوجواں کیسے کیسے۔
ہاں! دنیا و آخرت کی بہتری کےلیے یہ مختصر سی دعاء اکثر و بیشتر پڑھنی چاہیے، جس میں دنیا بھی اچھی اور آخرت بھی اچھی کی طلب موجود ہے: {رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ}۔
Comments