*بھیک دینے سے غُربت ختم نہیں ہوتی!*
انتخاب و ترتیب: ڈاکٹر فیض احمد بھٹی
ہم نے دو نو عمر بچوں کو لیا۔ ایک کو پُرانے کپڑے پہنا کر بھیک مانگنے بھیج دیا، اور دوسرے کو مختلف چیزیں دے کر فروخت کرنے بھیج دیا۔ شام کو بھکاری بچہ آٹھ سو روپے، جبکہ مزدور بچہ ڈیڑھ سو روپے کما کر لایا۔ اس سماجی تجربے کا نتیجہ بالکل واضح نکلا کہ بحیثیتِ قوم ہم گداگری کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور محنت مزدوری کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ ہوٹل کے ویٹر، سبزی فروش، رکشہ ڈرائیور اور چھوٹی سطح کے محنت کشوں کے ساتھ ہم ایک ایک پائی کا حساب کرتے ہیں۔ اور بھکاریوں کو دس بیس یا سو پچاس روپے دے کر ہم سمجھتے ہیں کہ جنت ہمارے لیے واجب ہوگئی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ مانگنے والوں کو صرف کھانا کھلائیں یا انکی مطلوبہ ضرورت پوری کر دیں۔ اور مزدوری کرنے والوں کو ان کے حق سے زیادہ دیں۔ ہمارے استاد فرمایا کرتے تھے کہ بھکاری کو اگر آپ ایک لاکھ روپے نقد بھی دے دیں، تو وہ اس کو محفوظ مقام پر پہنچا کر اگلے دن پھر سے بھیک مانگنا شروع کر دیتا ہے۔ اس کے برعکس اگر آپ کسی مزدور یا سفید پوش آدمی کی مدد کریں تو
وہ اپنی جائز ضرورت پوری کر کے زیادہ بہتر انداز سے اپنی مزدوری کرنے لگ جاتا ہے۔ کیوں نا ہم گھر میں ایک مرتبان رکھیں اور بھیک کےلیے مختص سکے یا روپے اس میں ڈالتے رہیں؟! جب مناسب رقم جمع ہو جائے تو اس کو نوٹوں کی صورت میں ایسے آدمی کو دے دیں جو بھکاری نہیں بلکہ سفید پوش ضرورت مند ہو۔ سچ پوچھیے! اس ملک میں لاکھوں یتیم، بیوگان، طالب علم، مریض، مزدور اور بے کس خواتین و حضرات موجود ہیں جو ایک ایک ٹکے کے محتاج ہیں۔ اگر صحیح مستحق کی مدد کریں تو ایک روپیہ بھی آپ کو پل صراط پار کرنے کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ یاد رکھیے! بھیک دینے سے غربت ختم نہیں ہوتی بلکہ گداگری بڑھتی ہے۔ لہذا خیرات ضرور دیں، مگر طریقے سلیقے اور احتیاط کے ساتھ، اس طرح دنیا بھی بدل سکتی ہے اور آخرت بھی۔ باقی مرضی آپ کی!!!
Comments