top of page
Writer's pictureIDREES CHAUDHARY

اہل كتاب عورت سے نکاح جائز ،،، مگر تہواروں پر مبارک دینا حرام کیوں؟؟؟ بقلم: ڈاکٹر فیض احمد بھٹی


اہل كتاب عورت سے نکاح جائز ،،، مگر تہواروں پر مبارک دینا حرام کیوں؟؟؟

بقلم: ڈاکٹر فیض احمد بھٹی

بلا شبہ اہل کتاب (یہود و نصاری) عورت سے شادی کرنا شریعت مطہرہ نے کسی حد تک جائز قرار دیا ہے۔ وہ بھی کچھ ضروری شرائط کے ساتھ۔ تاہم ان کی عیدوں ان کے مذہبی تہواروں مطلب ان کے بنیادی عقائد و نظریات کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنا یا ان میں اظہار خوشی کرنا شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔

قارئین! یہاں یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ شادی کرنا کسی حد تک تو جائز ہے۔ وہ بھی کچھ شرائط ملحوظِ خاطر رکھتے ہوے۔ جو کہ فقہاء متین نے بیان کر دی ہیں: مثال کے طور پر 1-وہ عورت حسباً نسباً اہلِ کتاب یعنی یہودی یا عیسائی ہو۔ جعل سازی یا اسلام سے مرتد ہو کر یہودیت یا عسائیت اختیار نہ کی ہو۔ 2-وہ پاک دامن عفیفہ ہو۔ 3-وہ اس قبیلے، علاقے یا ملک سے تعلق رکھتی ہو جو مسلمانوں کی عداوت میں بھرپور اور سرعام نہ ہوں۔ 4-اس شادی کے بعد مزید فتن و فساد کا خدشہ بھی نہ ہو۔ اسی طرح اور بھی کئی شروط بیان کی گئی ہیں، جس میں اہم ترین یہ شرط بھی ہے کہ شادی کا خواہشمند مسلمان بذاتِ خود اسلام کے دائرے میں رہتے ہوے اپنے عقیدے پر مضبوطی سے قائم و دائم رہنے کی صلاحیت کا حامل ہو۔ پھر ان سب شروط کے ہوتے ہوئے بھی شادی اس وقت جائز ہے کہ حالات اس طرح کے بن چکے ہوں جس میں یہ شادی کرنا ضروری ہو جائے۔

بعض علمائے امت نے دور اندیشی کے پیش نظر یہ کہتے ہوے اس شادی کو ممنوع قرار دیا ہے کہ اس میں فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔ لیکن چونکہ بنیادی طور پر شریعت نے کچھ حدود و قیود کے ساتھ اس کی اجازت دی ہے تو اس لیے ہم اس نکاح سے منع نہیں کر سکتے۔

مگر یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ جس شریعت نے ہمیں کتابیہ عورت سے شادی کی اجازت دی ہے دوسری جانب اسی شریعت نے ہمیں ان کے عقائد و نظریات خاص کر عقیدہ تثلیث اور اس سے بھی خطرناک یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام 25 دسمبر کو son of God as یعنی اللہ کے بیٹے کی حیثیت سے پیدا ہوے۔ (نعوذ باللہ نقلِ کفر، کفر نہ باشد) مطلب نصاریٰ کا یہ عقیدہ کہ حضرت مریم علیہا السلام کے بطنِ پاک سے بغیر باپ پیدا ہونے والے بچے مسیح کا باپ خدا ہے۔ یہ عقیدہ اتنا خطرناک ہے جسے قرآن نے یوں بیان کیا کہ اگر پہاڑوں اور آسمانوں میں احساس و شعور ہوتا اور وہ یہ سن لیتے کہ لوگ حضرت عیسیٰ کو (اللہ کا بیٹا کہتے اور مانتے ہیں) تو وہ پھٹ کر ریزہ ریزہ ہو جاتے۔ معلوم ہوا کہ کس قدر نحوست ہے اس بیانیے کی؟!

اس لیے ہم کہتے ہیں آپ بنیادی طور پر یہی بات ذہن نشیں رکھیں کہ جس شریعت نے ان (اہل کتاب) کی عورتوں کے ساتھ بعض حالات میں شادی کرنا جائز قرار دیا ہے، اسی شریعت نے ہمیں ان کے عقائد اختیار کرنے، انکی عیدوں تہواروں میں جانے یا مبارکیں دینے سے سختی سے منع کیا ہے۔

دوسرے لفظوں میں جو عقائد و نظریات ان کے مذہب کا جُزوِ لاینفک ہیں، انکے شعائر دینیہ اور واضح مذہبی علامتیں بن چکے ہیں، ان سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ کیونکہ ہم مسلمان اس بات کے پابند ہیں کہ جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا وہ سر آنکھوں پر اور جس سے روک دیا اس سے مکمل اجتناب۔ خواہ وہ حکم ہماری عقل میں آئے یا نہ آئے! اس حوالے سے شیر خدا حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے بہت ہی اعلیٰ و عمدہ قول صحیح سند و متن کے ساتھ ابو داود شریف میں بایں الفاظ ثابت ہے۔ (لو كان الدين بالرأي لكان أسفل الخف أولى بالمسح من أعلاه، وقد رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يمسح على ظاهر خفيه) آپ نے اپنے بیانِ وضاحت میں کمال کردیا، کب؟ جب لوگ اسی طرح کی باتیں کر رہے تھے: کہ دین کی فلاں بات عقل و شعور میں نہیں آ رہی۔۔۔ یا جس طرح آجکل یہ بات ہو رہی کہ کتابیہ سے شادی کرنا تو جائز مگر ان کے تہواروں میں شرکت و مبارکبادی حرام کیوں؟؟؟ یہ بات عقل میں نہیں آتی!!! حالانکہ یہ شادی وادی ایک پرسنل میٹر ہے مطلب کہ کسی کتابیہ عورت کے ساتھ بعض شرائط و حالات کے پیش نظر شادی ہو جائے تو پہلی بات یہ ہے کہ وہ معاملہ ایک عورت مرد تک محدود ہے۔ دوسری بات یہ کہ وہ حسبا نسبا اہلِ کتاب ہے۔ لہذا اس کے دل میں حضرت عیسی ع کے ساتھ ساتھ ہمارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی احترام موجود ہوتا ہے۔ سو اکثر و بیشتر اس طرح کی عورتیں مسلمان ہو جاتی ہیں۔ مگر یہاں تو معاملہ تمام اہل کتاب کی ایسی عیدوں اور تہواروں کا ہے جن کی بنیاد انکے خطرناک ترین عقائد و نظریات پر ہے۔ مثلا: تثلیث عسائیوں کا عقیدہ عام ہے۔ اسی طرح (نعوذباللہ) یہ عقیدہ کہ 25 دسمبر کو حضرت مریم نے خدا کا بیٹا جنم دیا۔ اور اس طرح کے دیگر ان کے کفریہ عقائد و نظریات تو پوری دنیا میں پھیلے ہوے ہیں۔ بد قسمتی سے وہ انہیں اپنے مذہب کا حصہ سمجھتے ہیں۔ بات ہو رہی تھی شیر خدا علی مرتضی کی کہ جب لوگ ان کے سامنے اس طرح کی باتیں کرتے کہ فلاں شریعتی حکم کو عقل تسلیم نہیں کرتی؛ تو آپ فرماتے: ایسا ممکن نہیں کہ دینی احکامات کو عقلِ انسانی پر پرکھا جائے کہ جسے عقل تسلیم کرے وہ مان لیں، جو عقل تسلیم نہ کرے اسے چھوڑ دیں! آپ مثال دے کر فرماتے ہیں اگر عقل کو دیکھا جائے تو پھر موزوں جرابوں کے اوپر والی سائیڈ پر مسح کرنے کی بجائے نیچے والی سائیڈ پر کرنا چاہیے۔ کیونکہ مٹی وغیرہ تو نیچے لگی ہوتی ہے؛ لہذا اوپر کی بجائے مسح نیچے والی سائیڈ پر کرنا چاہیے؛ کیونکہ عقل تو یہی کہتی ہے۔ لیکن چونکہ شریعت عقل کے تابع نہیں عقل شریعت کے تابع ہے۔ لہذا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرما دیا، کر کے بھی دکھا دیا کہ مسح موزوں جرابوں کے اوپر والی جانب کرنا ہے۔ تو پھر ہم نے عقلی دلیل کو سائیڈ پر کر دیا اور نقلی دلیل یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول شدہ قول و عمل کو اپنا لیا۔

خلاصہ کلام یہ کہ شرعیت نے جب (کچھ شرائط و لوازمات کے ساتھ) کتابیہ سے شادی کی اجازت دی ہے تو حُکمِ شریعت سر آنکھوں پر!!! دوسری طرف اہل کتاب کے عقائد و نظریات اختیار کرنے، انکی عیدوں اور ان کے تہواروں میں شرکت و مبارکبادی سے منع کیا ہے تو بھی حُکمِ شریعت سر آنکھوں پر!!!

رہی بات ان کے ساتھ تجارتی و سفارتی تعلقات رکھنا، انکے عام پروگراموں میں جانا، ان کے ساتھ سوشل ورکنگ رلیشن قائم رکھنا، انکے مماملک میں جا کر قوانین کی پاسداری کرنا وغیرہ،،،،، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جب اہلِ کتاب کی عیدوں اور مذہبی تہواروں میں جانا منانا، انہیں مبارکبادیں دینا حرام ہے کہ جنکی عورتوں سے شادی کرنا اسلام میں جائز ہے،،،،، تو باقی مذاہب: مجوسیت، ہندو ازم، بدھ ازم اور سکھ ازم کی عیدوں یا تہواروں میں شرکت و مبارکبادی بالأولی حرام ٹھہرتا ہے۔

0 comments

Komentarai

Įvertinta 0 iš 5 žvaigždučių.
Kol kas nėra įvertinimų

Pridėti vertinimą
bottom of page