*انتہائی قابلِ غور باتیں* (قسط نمبر4)
بقلم: *ڈاکٹر فیض احمد بھٹی*
✓محکمہ بہبودِ آبادی، خاندانی منصوبہ بندی، فیملی پلاننگ وغیرہ کے ناموں سے سرکاری و غیر سرکاری سطح پر پاپولیشن کنٹرول اینڈ بیلنس کرنے کےلیے کئی پروگرام وطنِ عزیز میں بڑی شد و مد سے جاری و ساری ہیں۔ *چلیں* جِن جوڑوں کے ہاں بدستور اولاد پیدا ہو رہی ہے، انہیں تو (بچے 2 ہی اچھے) کا فارمولا لگا کر کئی طریقوں سلیقوں سے مزید بچے پیدا کرنے سے روک کر کنٹرول اینڈ بیلنس کرنا کسی حد تک سمجھ میں آتا ہے۔ *مگر* وہ جوڑے جن کی اولاد پیدا ہونے کا امکان ہی نہیں، انہیں بھی 2 بچے ضرور پیدا کروائے جانے چاہیں یا مُہیا کیے جانے چاہیں! *تاکہ* پورے ملک میں برابر کی فیملی پلاننگ قائم ہو سکے، اور واقعتاً پاپولیشن کنٹرولڈ اینڈ بیلنسز نظر آئے۔ *مگر* اس پر محکمہ بہبود آبادی اور خاندانی منصوبہ بندی کے حامی دانشور بلکل خاموش ہیں۔
✓حدیث رسول ﷺ کے مطابق ایک آدمی نے بارش زدہ(بھیگے) جَو کی خشک جَو میں ملاوٹ کر دی۔ *رسالت مآب* ﷺ نے یہ ماجرہ دیکھ کر فرمایا: (من غش فلیس منا) کہ جس نے ملاوٹ کی ہمارا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ *قارئین!* اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ یہ تو صرف گیلے جو کی خشک جو میں ملاوٹ تھی *مگر* جو لوگ ان چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں جن پر انسانی جان کا دار و مدار ہوتا ہے، یا دینِ اسلام میں ملاٹ کرتے ہیں، جس پر انسانی ایمان کا دارو مدار ہے *تو* ان کا انجام کیا ہوگا؟؟؟
✓مساجد بنانے بنوانے میں تو ہم پیش پیش رہتے ہیں۔ پھر ہر سال انکی ڈیکوریشن کروانے میں، انہیں آئے روز سجانے میں ہم لاکھوں روپے خرچ کرتے رہتے ہیں۔ *مگر* اسے آباد کرنے کےلیے، اس میں نمازیں پڑھنے کےلیے ہمارے پاس وقت ہی نہیں ہوتا۔ *اس پر مستزاد* کہ مسجد کی آبادکاری اور خدمت میں دن رات مصروف اِمام صاحب کےلیے ہمارے دلوں اور مال پر اکثر گرہن لگا رہتا ہے۔ انہیں (قُوت لا یمُوت) تنخواہ پر ہی چلایا جاتا ہے۔ جو کہ انتہائی قابل افسوس روش ہے۔ *بقول شاعرِ مشرق:*
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے،
من اپنا پُرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا+
کیا خوب امیرِ فیصل کو سنوسی نے پیغام دیا،
تو نام و نسب کا حجازی ہے پر دل کا حجازی بن نہ سکا۔
✓جب مستند اور معتبر علما ؤ مشائخ اِصلاحِ اُمت کےلیے اپنی ذمے داریاں کماحقہ ادا نہ کر رہے ہوں، علوم شرعیہ کی خدمت اور نشر و اشاعت کی بجائے اور کاموں میں محو ہو جائیں *تو پھر عوام الناس* فیسبکی اور یوٹیوبری نام نہاد سکالروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ آگے اندازہ آپ خود لگا لیں کہ انجامِ گُلستاں کیا ہو گا؟!
✓جب کسی ملک میں سولین عدالتیں اپنی من مانی کرنے لگیں، قانون کے رکھوالے ہی قانون کی دھجیاں بکھیرنے لگیں، انصاف کا خون ہو رہا ہو، اور مقتدر شخصیات خاموش تماشائی بنی رہیں۔ *پھر* قانونِ قدرت حرکت میں آتا ہے، اور مذکورہ عدالتوں کہ جگہ کئی دوسری عدالتیں۔۔۔۔۔۔۔ لے لیتی ہیں۔ *تو* پھر ججوں اور وکیلوں سمیت کیا سیاست دان یا ریاست دان، کیا قانون دان یا دانشوران سب کی چیخیں نکلتی ہیں۔ *کاش* اگر آئین و قانون کی پاسداری کی جاتی تو نوبت یہاں تک نہ آتی۔
✓ویسے تو انسان کا کسی آزمائش (بیماری، حادثہ، پریشانی وغیرہ) میں مبتلا ہونا کوئی خوشی کی بات نہیں۔ *مگر* بدقسمتی سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے حکمران و سیاستدان جب تک پولیس کے ہتھے نہ چڑھیں تب تک انہیں تھانہ کلچر کا پتہ نہیں چلتا۔ پھر جب تک حولات یا جیل نہ جائیں تب تک انہیں حوالتیوں اور قیدیوں کی بد حالی اور مشکلات کا ادراک نہیں ہوتا ہے۔ پھر جیل سے آگے جب سرکاری ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں تو وہاں انہیں بیماروں اور مریضوں کی کسما پرسی کا احساس ہوتا ہے: کہ ہم نے ان کےلیے کچھ بھی نہیں کیا۔ *ورنہ* انکے کانوں پر تو جوں تک نہیں رینگتی۔
(جاری ہے۔۔۔۔)
Comentarios