*امام مسلم رحمه الله:* (حیات و خدمات)
بقلم: *ڈاکٹر فيض احمد بھٹی*
بطورِ حجت فی الدین اول الذکر اللٌہ تعالی کی کتاب قرآنِ مجید ہے۔ اس کے بعد کی منزلت امام بخاری کی کتاب صحیح بخاری شریف کو حاصل ہے۔ پھر اس کے بعد صحت و صداقت کے منصب پہ امام مسلم کی کتاب صحیح مسلم شریف فائز ہے۔ اس فکر کے اجمال کو اگر وسعت دیں تو یہ تفصیل کے قالب میں ڈھل کر یوں نمایاں ہوتا ہے کہ جس طرح اسلام کے بنیادی عقائد، عبادات، معاملات اور اخلاقیات کی معرفت سمیت تمام انواع کی حلت و حرمت کے بنیادی مسائل کی پرکھ کے لیے قرآن کی طرف رجوع کیا جانا از حد ضروری ہے۔ اُسی طرح اِن مسائل کی شرح و بسط کےلیے رسالت مآبﷺ کے فرامین پہ مشتمل بخاری شریف اور مسلم شریف سمیت دیگر معتبر کتبِ حدیث کی طرف بھی رجوع کیا جانا از بس ضروری ہے۔ قرآنی احکام کی تفسیر و تفصیل کے لیے یہ کتابیں نہایت واجب الاعتماد ذرائع ہیں۔ ان کتب سے روگردانی گویا قرآن کے منشا و مفہوم سے نابلد ہونے کی نشانی ہے۔ شرحِ صدر رہے کہ درجِ بالا مقدمہ بلا جواز ہے اور نہ ہی بلا دلیل ہے۔ بلکہ ہمارے اس مقدمے کی بِنا قرآن مجید ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے کہ:{وأنزلنا إليك الذكر لتبين للناس ما نزل إليهم.۔۔.}۔ ترجمہ: اے محبوبﷺ ہم نے یہ ذکر(قرآن) آپکی طرف نازل کیا ہے۔ تاکہ آپ لوگوں کیلیے اس میں منزّل شدہ(احکام) کی وضاحت کریں۔۔۔۔ قارئین! اكنافِ عالم ميں منتشر احادیث کی جمع بندی اور پھر ان کے ردّ و قبول کے حوالے سے کڑے ترین معیار و ضوابط کے پیشِ نظر محض صحیح احادیث کا اہتمام، انصرام اور اجتماع کرنا وہ بھی انتہائی دقیق و عمیق ترتیب کے ساتھ، یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں تھا۔ بلکہ توفیقِ الہی سے محدثین کی یہ ایسی سخت کاوشیں اور مخلصانہ محنتیں تھیں کہ جن کا ثمر صحیح بخاری و صحیح مسلم جیسے معرکہ آرا مجموعہ احادیث کی صورت میں امتِ مسلمہ کو نصیب ہوا۔ ان دو کتب میں جو بھی حدیث ضبطِ تحریر میں آئی پوری امت کی طرف سے اسے قبولیتِ عامہ نصیب ہوگئی۔ بزبانِ حال و قال سب کی طرف سے یہی عیاں ہوا کہ شیخین(بخاری و مسلم) کی روایت کردہ ہر حدیث پہ بلا کھٹکے مِن و عن عمل کرنا ہر صاحبِ ایمان اور ذی شعور پہ لازم ہے۔ یہاں یہ امر بھی حیرت آمیز دلچسپی سے خالی نہیں کہ صحیح احادیث کے مذکورہ مجموعے جن عالی حضرات سے تشکیل پذیر ہوے وہ کوئی عربی النسل نہیں بلکہ عجمی النسل تھے۔ قُدرت نے خیرِ کثیر کا یہ کام اہلِ عجم سے لیا۔ اور کام بھی ایسا شاہکار ثابت ہوا کہ دنیا بھر میں جسکی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ لہذا تاقیامت امت کا ہر فرد ان دو حضرات کے زیرِ احسان رہے گا۔ عقلِ سلیم اور بصیرت کے آئینے میں اگر دیکھا جاۓ تو یہ کوئی معمولی خدمت نہیں تھی۔ کیونکہ احادیث کی تدوین و روایت میں لفظی و معنوی صحت کے التزام کی خاطر محدثین جو قوت و بصیرت بروۓ کار لاۓ قدرت کی طرف سے وہ کسی کسی کو ہی نصیب ہوتی ہے۔ پھر جن مشکلات کا انہیں سامنا رہا وہ برداشت کرنا بھی ہر کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔ کتنے ہی مقاماتِ آہ و فغاں آۓ اور دنیا کی کتنی ہی مکروبات کا انہیں سامنا رہا مگر ان کے پاۓ استقامت میں نہ تو کبھی جُنبش آئی اور نہ ان کی جہدِ مسلسل نے کبھی تساہل برتا۔ یہ کارواں چلا اور بس چلتا ہی گیا۔ اس تمہید کے بعد اب ہم امام مسلم رح کی سیرت اور ان کی مایہ ناز کتاب صحیح مسلم شریف کے بعض خصائص کے حوالے سے چند معروضات پیش کرتے ہیں۔ یاد رہے! قبل ازیں ایک سابقہ کالم میں ہم امام بخاری رح کی شخصیت اور ان کی کتاب صحیح بخاری کو زیرِ بحث لاچکے ہیں۔ یہ سلسلہ بڑھاتے ہوۓ آج ہم امام مسلم رح اور ان کی کتاب صحیح مسلم کے متعلق آپکو کو روشناس کریں گے کہ قرآن کے بعد "أصح الکتب بعد کتاب الله" بخاری شریف ہے۔ اور پھر بخاری شریف کے بعد صحت و ثقاہت کا اعلی درجہ مسلم شریف کو حاصل ہے۔ امام مسلم بھی امام بخاری کی طرح روایتِ و درایت میں اصولِ حدیث کے اعلی ترین پیمانے پہ پورا اترتے ہیں۔ قارئین! اِن محدثین کے خلوص اور محنتِ شاقہ ہی کا مظہر ہے کہ پوری امت رسالت مآبﷺ سے بِلا واسطہ تو نہیں مگر بِالواسطہ آج تک فیض یاب ہو رہی ہے اور تا قیامت ہوتی رہے گی۔ قارئین! امام مسلم کا پورا نام ابو الحسین مسلم بن حجاج بن مسلم القشیری ہے۔ آپ 202ھجری میں ایران کے مشہور شہر نیشاپور میں پیدا ہوئے۔ اور 261ھ میں نیشاپور میں ہی وفات پائی۔ آپکا دور علمی اعتبار سے ایک زریں دور تھا۔ بلادِ اسلامیہ میں علمِ حدیث کے بڑے بڑے مراکز قائم ہوچکے تھے۔ جہاں طلابِ حدیث اپنی اپنی بساط کے مطابق اکابر محدثین سے فیضیاب ہو رہے تھے۔ اس وقت نیشاپور بھی علمِ حدیث کے اہم مراکز میں شمار ہوتا تھا۔ وہاں درسِ حدیث کے بڑے بڑے حلقے قائم تھے۔ امام مسلم نے ابتدائی تعلیم سے فراغت کے بعد خراسان، عراق، حجاز، شام، بغداد اور مصر کے کبار محدثین سے اکتسابِ فیض کیا۔ بہت ہی کم عرصے میں آپ رح نے تمام مروجہ علوم میں دسترس پا لی۔ حصولِ روایت و درایت کی خاطر آپ نے جن محدثین کے آگے زانوۓ تلمذ طے کیا ان میں: اسحاق بن راھویہ، قتیبہ بن سعید، عبد اللہ بن مسلمہ القعنبي، یحیٰ بن یحیٰ نیشاپوری، سعید بن منصور، امام احمد بن حنبل، امام بخاری، اور امام زُهلي وغیرہ کا نام شامل ہے۔ فنِ حدیث میں آپکو مہارتِ تامہ جبکہ علمِ رجال میں یدُ طولیٰ حاصل تھا۔ *آپ کے اساتذہ نے* آپ کی علمی شخصیت اور دینی خدمات بالخصوص خدمتِ حدیث کے حوالے سے یوں تحسین فرمائی: 1-آپ کے استاد اسحاق بن راھویہ فرماتے ہیں: اللٌہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ شخص مستقبل میں کتنا بڑا محدث بنے گا۔ 2-شیخ محمد الفراء فرماتے ہیں: مسلم بن حجاج علمِ حدیث کے حفاظ میں سے ہیں۔ میں ان میں سواۓ خیر کے کچھ نہیں دیکھتا۔ 3-آپ کے استاد محمد بن بشار کہتے ہیں: حدیث کے چار بلند پایہ حافظ ہیں: محمد بن اسماعیل(بخارہ میں)، مسلم( نیشاپور میں)، دارمی(سمرقند میں)، اور ابوزرعہ رازی( رَي میں) 4-احمد بن سلمہ کہتے ہیں: ابو زرعہ رازی اور ابوحاتم رازی اپنے زمانے کے تمام محدثین پر امام مسلم کو ترجیح دیتے تھے۔ علاوہ ازیں کثیر زعماۓ اسلام نے آپ کی علمی وجاہت اور دینی خدمت کو یوں خراجِ عقیدت پیش کیا: 5-شارح مسلم امام نووی فرماتے ہیں: آپ اہلِ حفظ و اتقان میں اعلی ترین درجے پہ فائز تھے۔ 6-خطیب بغدادی کہتے ہیں: آپ کا شمار حفاظِ حدیث کے ائمہ میں ہوتا ہے۔ 7-محدث سمعانی کہتے ہیں: جن علماء نے پوری دنیا پہ اپنی امامت کا سکہ بٹھایا امام مسلم ان میں سے ایک ہیں۔ 8-ابنِ خلکان کہتے ہیں: آپ حفاظ کے امام اور اعلی درجے کے محدث ہیں۔ 9-حافظ ذہبی کہتے ہیں: آپ بہت بڑے امام اور علم حدیث میں حجت کا درجہ رکھتے ہیں۔ 10-نواب صدیق الحسن قنوجی کہتے ہیں: امام بخاری کے بعد امام مسلم خراسان کے سب سے بڑے امام و محدث ہوۓ ہیں۔ قارئین! صحیح مسلم کو جس 15 سالہ محنتِ شاقہ اور والہانہ خلوص کے ساتھ آپ نے مرتب کیا اس کا اندازہ تو مسلم شریف کے مطالعے سے لگایا جا سکتا ہے۔ تاہم یہاں ہم یہ بتلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کو بذاتِ خود اپنے اس مجموعۂ حدیث پر بے حد ناز تھا چنانچہ آپ فرماتے ہیں: اگر محدثین دو سو سال تک حدیثیں لکھتے رہیں پھر بھی وہ اس مُسند(صحیح مسلم) کے محتاج رہینگے۔
قارئین! امام مسلم نے مسلم شریف کی ابتدا میں ایک نفیس مقدمہ بھی لکھا ہے۔ جس میں آپ نے ازخود روایات کو تین طبقوں میں تقسیم کیا ہے۔1۔وہ حدیثیں جو بالکل صحیح ہیں اور ان کے تمام راویوں کو اعلی درجے میں متقن، حافظ، ضابط، اور ثقہ تسلیم کیا گیا ہے۔ 2۔وہ حدیثیں جن کے راوی باعتبارِ حفظ، ثقاہت، اور اتقان پہلے درجے کی نسبت کچھ کم ہیں۔ 3۔وہ حدیثیں جن کے راویوں کو عموما یا اکثر محدثین نے "مردود" قرار دیا یا "متهم بالکذب" کہا۔ آپ رح اِن تینوں طبقات کا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: کہ میں اپنی اِس کتاب میں پہلی قسم کی حدیثوں کے بعد حسبِ ضرورت دوسری قسم کی احادیث درج کروں گا۔ مگر تیسری قسم کے راویوں سے کوئی بھی حدیث ہر گز روایت نہیں کروں گا۔ *قارئین! صحیح مسلم* کی جو خوبیاں اسے دیگر کتبِ حدیث سے ممتاز کرتی ہیں وہ ذیل میں پیشِ خدمت ہیں:1-اساتذہ و شیوخ کے چناؤ میں انتہائی احتیاط برتنا۔ 2-قبولِ حدیث میں کڑی شروط کو ملحوظِ خاطر رکھنا۔ 3-بار بار اپنی کتاب کی پروف ریڈنگ کرنا۔ 4-روایتِ حدیث میں لفظی پہلو کو انتہائی ترجیح دینا۔ 5-روایتِ حدیث میں صیغۂ ادائیگی کا مکمل خیال رکھنا۔ 6-ایک موضوع و عنوان کے متعلقہ تمام احادیث کو ایک ہی جگہ پہ احسن ترتیب سے درج کرنا۔ 7-پھر مکمل کتاب لکھنے کے بعد اسے اپنے مشائخ اور ہم عصر جید علما کے سامنے چیک اپ کیلیے پیش کرنا۔ قارئین! ذہن نشیں رہے کہ مسلم شریف میں بھی بخاری شریف کی طرح تمام حدیثیں حسبِ عُنوان فِقہی انداز میں کُتب اور ابوب کے تحت درج کی گئی ہیں۔
Comments