top of page

اب تک صوبہ بلوچستان کو کیا کیا سہولتیں مل چکی ہیں؟ ایک مختصر سا جائزہ رپورٹ: ڈاکٹر فیض احمد بھٹی

*اب تک صوبہ بلوچستان کو کیا کیا سہولتیں مل چکی ہیں؟*

ایک مختصر سا جائزہ

رپورٹ:

*ڈاکٹر فیض احمد بھٹی*


قارئین! صوبہ بلوچستان رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ ہزاروں سال سے ویران پڑے اس بلوچستان کو قیام پاکستان کے بعد پاکستان نے بلا تأمل وہ سب کچھ دیا ہے جو ممکن تھا۔

مثلاً: بلوچستان میں قیام پاکستان سے پہلے بجلی بنانے کا کوئی نظام نہ تھا۔ پاکستان نے بلوچستان میں 2500 میگاواٹ بجلی بنانے کےلیے 5 یونٹس لگائے۔ جبکہ بلوچستان کی كل ضرورت اس وقت فقط 1400 میگاواٹ ہے۔

قیام پاکستان کے وقت بلوچستان میں صرف ایک ڈیم تھا۔ اب تک 66 ڈیم بنائے جا چکے ہیں۔ جبکہ مزید 100 ڈیم بنانے کےلیے کوششیں جاری ہیں۔

قیام پاکستان کے وقت بلوچستان کی صرف دو تین لاکھ ایکڑ زمین کاشت ہو رہی تھی۔ پاکستان کے بنائے گئے آبپاشی کے منصوبوں اور دھڑا دھڑ بنائے جانے والے ڈیموں کی بدولت یہ رقبہ اب 10 لاکھ ایکڑ سے تجاوز کر چکا ہے۔ اس کے بعد جنرل پرویز مشرف نے بلوچستان کو کچی کنال کے ذریعے سیراب کرنے کا منصوبہ بنایا۔ جس میں پنجاب سے پانی بلوچستان تک پہنچانا تھا۔ یہ منصوبہ کافی حد تک مکمل ہوچکا ہے۔ اس منصوبے سے بھی بلوچستان کی مزید 5 تا 7 لاکھ ایکڑ زمین سیراب ہوگی۔ کیونکہ کوشش یہ ہے کہ صوبہ بلوچستان کا زیر کاشت رقبہ تین گنا کر دیا جائے؛ تاکہ بلوچستان خوراک میں خود کفیل ہوسکے۔

بلوچستان میں آبادیاں کم اور دور افتادہ ہونے کے باوجود پورے پاکستان میں سب سے اچھی سڑکیں بلوچستان میں بنائی گئی ہیں۔ جس پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کبھی بلوچستان میں سفر کر کے دیکھو تو آپ زبردست سڑکیں دیکھ کر حیران ہو جائیں گے۔ صرف پچھلے تین سالوں میں بلوچستان میں 3732 کلومیٹر نئی سڑکیں بنائی گئی ہیں۔

قیام پاکستان کے وقت بلوچستان میں ایک بھی یونیورسٹی نہیں تھی۔ پاکستان اب تک صوبہ بلوچستان میں 24 یونیورسٹیاں بنا چکا ہے۔ جو بدقسمتی سے "بی ایس او" "بی ایل اے" اور دیگر خونخوار دہشتگرد تنظیوں کا گڑھ بن گئی ہیں۔ وہاں نوجوانوں کو ڈاکٹر انجنیر بنانے کے بجائے سرمچار بنا کر پاکستان کے ہی خلاف لڑنے کےلیے تیار کیا جاتا ہے۔

اسی طرح ایک بڑی تعداد میں سکولز، کالجز اور تدریبی ادارے بھی بنائے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں بلوچستان کے نوجوانوں کو پورے پاکستان کی یونیورسٹیوں میں سکالرشپ پر مفت تعلیم دی جاتی ہے، جبکہ دیگر پاکستانیوں کو لاکھوں روپے فیس دینی پڑتی ہے۔

اسی طرح پاک فوج اور پولیس وغیرہ میں بھی بلوچی نوجوانوں کو بھرتی کرنے کےلیے پورے پاکستان کی نسبت سب سے نرم شرائط رکھی گئی ہیں۔

بلوچستان میں قیام پاکستان کے وقت صرف کوئٹہ میں ایک سرکاری ہسپتال تھا، جبکہ اس وقت بلوچستان میں 134 ہسپتال 574 ڈسپنسریاں اور 95 زچگی کے مراکز بنائے جا چکے ہیں۔ بلوچستان میں 4015 ڈاکٹرز بشمول 1057 سرجن، سینکڑوں ڈسپنسرز اور نرسز بھی مقرر کی گئی ہیں۔ یہ بلوچستان کی بدقسمتی ہے کہ ان کے اپنے ہی مقامی ڈاکٹر حکومت سے نتخواہ لے کر بھی

ہسپتالوں میں خدمت خلق کےلیے نہیں بیٹھتے، بلکہ بہت سے ڈاکٹرز تو پاکستان سے باہر پریکٹس کرتے ہیں اور ان کی تنخواہیں پاکستان سے چل رہی ہیں۔ اگر ان کے خلاف کوئی کاروائی کی جائے تو ڈاکٹروں کا احتجاج شروع ہوجاتا ہے۔

اس پر مستزاد کہ گیس اور دیگر قیمتی معدنیات کے ذاخائر کی دریافتیں کر کے ان پر ریالٹی کی صورت میں بلوچستان کے ساتھ مالی تعاون کا تو کوئی اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکتا۔

قارئین! بلوچستان کو دی جانے والی مذکورہ سہولیات و خدمات کے حوالے سے اس رپورٹ کے بعد بھی اگر کسی کو یہ لگتا ہے کہ بلوچستان میں سکولز، کالجز، یونورسٹیز، ہسپتال، گیس، بجلی، پانی اور ملازمتوں وغیره کے معاملات ٹھیک نہیں ہیں، تو یہ بے حد جھوٹ اور انتہائی بے انصافی ہوگی۔

یہاں قابل غور یہ بات بھی ہے کہ "اٹھاوریں آئینی ترمیم" کے بعد 14 سال میں صوبہ بلوچستان کو ہزاروں ارب روپے کا بجٹ ملا ہے۔ جو ہمیشہ ان کی ضرورت سے زیادہ مقرر کیا جاتا تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ بجٹ کہاں صرف کیا گیا؟؟ کتنی سڑکیں، سکول اور ہسپتال بنائے گئے؟؟

قارئین اب اگلی بات کی طرف آئیے! کہ بلوچستان کی قسمت بدلنے والا سب سے بڑا منصوبہ گوادر پراجیکٹ ہے۔ جس کو "سی پیک" کے تعاون سے چین کے ساتھ ملایا جارہا ہے۔ یہاں ایک بات ذہن میں رہے کہ گوادر بلوچستان کا قطعاً حصہ نہیں تھا، بلکہ یہ سلطنت عمان کا حصہ تھا۔ جسے پاکستان نے عمان سے پیسوں کے عوض خریدا اور پھر 20 سال بعد بھٹو مرحوم کے دور میں اس کو بلوچستان میں شامل کر دیا گیا، جس کا فائدہ اب پورے بلوچستان کو ہو رہا۔ گوادر پرجیکٹ کے ضمن میں جہاں پورا بلوچستان ترقی کی راہوں پر گامزن ہے، وہاں لاکھوں لوگوں کو روزگار مل رہا ہے اور لوکل پراپرٹی کی ویلیو بھی بڑھ رہی ہے۔

اب گوادر ایئرپورٹ تقریباً مکمل ہو چکی ہے، جو دنیا کی جدید ترین ایئرپورٹ ہوگی۔ جس کے ذریعے بلوچستان کی ویلیو، اکانومی اور صنعت و تجارت میں بے حد اضافہ ہوگا۔

مگر انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ پھر بھی چند نام نہاد بلوچی جو در اصل فارن فنڈڈ دہشت گرد اور فسادی ہیں، وہ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی اور قتل غارت میں مصروف ہیں۔

لیکن ہمیں ان کی کوئی پرواہ نہیں کیونکہ 98 فیصد غیور بلوچی پاکستان اور پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ سو بہت ہی جلد ان مٹھی بھر دہشتگردوں سے پیارے بلوچستان کو صاف کر دیا جائے گا۔

البتہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے ضمیر فروش دہشتگردوں اور انکے جھوٹے پراپیگنڈوں سے خود بھی بچا جائے، اپنی اولاد اور دوسروں کو بھی بچایا جائے۔ کیونکہ ہم سب سے پہلے پاکستانی ہیں اور بعد میں بلوچی، سندھی، پنجابی، پشتون، سرائیکی، کشمیری اور بلتی ہیں۔

پاکستان ہے تو سب کچھ ہے

فوج ہے تو موج ہے

بقول علامہ اقبال:

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں

0 comments

Comments

Rated 0 out of 5 stars.
No ratings yet

Add a rating
bottom of page